Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

44 - 457
عیب رجع بنقصانہ ]٨٧٩[(٩) فان قتل المشتری العبد او کان طعاما فاکلہ ثم اطلع علی عیبہ لم یرجع علیہ بشیء فی قول ابی حنیفة رحمہ اللہ وقالا یرجع بنقصان العیب]٨٨٠[ (١٠) ومن باع عبدا فباعہ المشتری ثم رُدَّ علیہ بعیب فان قبلہ بقضاء القاضی فلہ ان یردہ 

خود بخود مرنے کی طرح ہو گیا اس لئے اس صورت میں بھی نقصان وصول کرے گا (٢) اثر میں اس کا ثبوت ہے  عن الشعبی ان رجلا ابتاع عبدا فاعتقہ ووجد بہ عیبا فقال یرد علی صاحبہ فضل ما بینھما ویجعل ما رد علیہ فی رقاب لانہ قد کان وجھہ (الف) (مصنف عبد الرزاق ، باب العھدة بعد الموت والعتق ج ثامن ص ١٦٤ نمبر ١٤٧٢٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ آزاد کرنے کے بعد عیب کا پتہ چلا تو نقصان وصول کرے گا۔  
اصول  خود بخود مبیع ہلاک ہو جائے اور بعد میں عیب کا پتہ چلے تو چونکہ یہ شائبہ نہیں ہے کہ مشتری اس عیب سے راضی تھا اس لئے بائع سے نقصان وصول کرے گا۔
]٨٧٩[(٩) پس اگر مشتری نے غلام کو قتل کر دیا یا کھانا تھا تو اس کو کھا لیا پھر اس کے عیب پر مطلع ہوا تو امام ابو حنیفہ کے قول میں بائع پر کچھ بھی رجوع نہیں کرے گا۔اور صاحبین نے فرمایا نقصان وصول کرے گا۔  
تشریح  مشتری نے غلام کو قتل کر دیا ،یا مبیع کھانا تھی اس کو کھا لیا پھر پتہ چلا کہ اس میں عیب ہے تو امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ بائع سے نقصان وصول نہیں کرے گا۔  
وجہ  کیونکہ جب خود قتل کر دیا اور کھا لیا تو اب اگر بائع اس مبیع کو واپس مانگے تو مشتری نہیں دے سکے گا۔اور یہ مشتری کے کرتوت سے ہوا تو گویا کہ مشتری کا عمل نے مبیع کو واپس نہیں ہونے دیا۔ اس لئے مشتری کو نقصان لینے کا حق نہیں ہوگا (٢) قتل کرنا اس بات پر دلیل ہو سکتا ہے کہ وہ اس عیب سے راضی تھا ۔اس لئے بھی نقصان نہیں لے سکتا۔
فائدہ   صاحبین فرماتے ہیں کہ نقصان لے گا۔  
وجہ  کیونکہ مشتری کو کیا پتہ کہ مبیع میں عیب تھا اس لئے وہ عیب سے راضی نہیں تھا ۔اور مشتری کا حق عیب بائع کے یہاں محبوس ہے ۔اس لئے وہ عیب کا نقصان بائع سے لے گا (٢) صاحبین کی دلیل اوپر حضرت علی کا اثر ہے کہ عیب کا نقصان لے۔یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ مشتری نے خود مبیع کو ہلاک کیا ہو پھر عیب دیکھے تو نقصان لیگا یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک نہیں لے گا،صاحبین کے نزدیک لے گا۔
]٨٨٠[(١٠)کسی نے غلام بیچا ۔پھر اس غلام کو مشتری نے دوسرے کے پاس بیچ دیا ۔پھر عیب کے ماتحت غلام مشتری پر واپس کر دیا گیا ۔پس اگر مشتری نے اس غلام کو قاضی کے فیصلہ سے قبول کیا تو اس کو حق ہے کہ اس غلام کو بائع اول کو واپس کردے۔اور اگر اس کو قاضی کے فیصلہ کے بغیر قبول کیا تو مشتری کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس کو بائع اول پر واپس کرے ۔

حاشیہ  :  (الف) حضرت شعبی سے منقول ہے کہ کسی آدمی نے غلام خریدا پھر اس کو آزاد کر دیا ۔بعد میں اس میں عیب پایا ۔فرمایا بائع پر دونوں کے درمیان فرق لوٹایا جائے گا(یعنی صحیح اور عیب دار کے درمیان قیمت کا جو فرق ہو وہ بائع سے لیا جائے گا) پھر جو کچھ لوٹایا وہ غلام کی گردن پر ڈالا جائے گا۔اس لئے کہ وہی اس کا سبب بنا۔

Flag Counter