Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

448 - 457
والبقر لواحد جازت المزارعة]١٧٠١[(٣) وان کانت الارض لواحد والعمل والبقر والبذر لآخر جازت المزرعة]١٧٠٢[(٤) وان کانت الارض والبذر والبقر لواحد والعمل لواحد جازت]١٧٠٣[(٥) وان کانت الارض والبقر لواحد والبذر والعمل 

ساراغلہ ہوگااور زمین والے کو اس کی اجرت ملے گی(٢) اس بارے میں کتاب الآثار لامام محمد میں ایک اثر بھی ہے۔عن مجاھد قال اشترک اربعة نفر علی عھد رسول اللہ ۖ فقال واحد من عندی البذر وقال الآخر من عندی العمل وقال الآخر من عندی الفدان وقال الآخر من عندی الارض قال فالغی رسول اللہ صاحب الارض وجعل لصاحب الفدان اجرا مسمی وجعل لصاحب العمل درھما لکل یوم والحق الزرع کلہ لصاحب البذر (الف) (کتاب الآثار لامام محمد ، باب المزارعة بالثلث والربع، ص ١٧٢،نمبر٧٧٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ غلہ دانے والے کا ہوگا۔
فائدہ  ایک نظریہ یہ ہے کہ پورا غلہ زمین والے کا ہوگا اور دوسرے لوگوں کو اس کے کام یا بیل ،بیج کی اجرت دے دی جائے گی۔  
وجہ  ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن رافع بن خدیج قال قال رسول اللہ من زرع فی ارض قوم بغیر اذنھم فلیس لہ من الزرع شیء ولہ نفقتہ (ب) (ابو داؤد شریف ، باب فی زرع الارض بغیر اذن صاحبھا ص ١٢٧ نمبر ٣٤٠٣) اس حدیث میں زمین والے کو پورا غلہ دیا گیا اور کام کرنے والے کو اس کی اجرت دی گئی۔جس سے معلوم ہوا کہ غلہ زمین والے کا ہوگا اور دوسرے کو اس کی اجرت ملے گی۔
]١٧٠١[(٣)اور اگر زمین ایک کی ہو اور کام ، بیل اور بیج دوسرے کے ہوں تو مزارعت جائز ہے۔   
وجہ  اس صورت میں کام ،بیل اور بیج والا گویا کہ زمین کو غلے کے بدلے اجرت پر لیا ہے۔اس لئے یہ مزارعت بھی جائز ہو جائے گی۔
]١٧٠٢[(٤) اور اگر زمین اور بیج اور بیل ایک کے ہوں اور کام دوسرے کا ہو تو بھی جائز ہے۔  
وجہ  اس صورت میں یہ سمجھی جائے گی کہ زمین اور بیج اور بیل والے نے کام والے کو اجرت پر لیا ۔اس لئے یہ صورت بھی جائز ہو جائے گی۔کیونکہ زمین والے کی طرف بیج ہے۔اس لئے غلہ اس کا ہوگا اور کام کرنے والے کو گویا کہ کچھ غلے کے بدلے اجرت پر لیا۔
ّ]١٧٠٣[(٥)اور اگر زمین اور بیل ایک کے ہوں اور بیج اور کام دوسرے کے ہوں تو باطل ہے۔  
تشریح  یہ ظاہر روایت ہے۔ورنہ امام ابو یوسف کی ایک روایت یہ ہے کہ یہ صورت بھی جائز ہے۔  
وجہ  اس کی وجہ یہ ہے کہ بیل زمین کے تابع نہیں ہوگا۔اس لئے بیج والا صرف زمین کو اجرت پر لے سکے گا۔اور بیل کو پیدا شدہ غلے کے بدلے اجرت پر لیتے ہیں۔ جو بعد میں زمین ہی سے غلہ پیدا ہوگا اس کے بدلے بیل کو اجرت پر لینے کا رواج نہیں ہے۔اس لئے بیل نہ زمین کے تابع 

حاشیہ  :  (الف)حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضورۖ کے زمانے میں چار آدمی بٹائی میں شریک ہوئے۔ایک نے کہا میری جانب سے بیج ہے۔دوسرے نے کہا میری جانب سے کام ہے۔ اور تیسرے نے کہا کہ میرے پاس سے بیل ہے۔اور چوتھے نے کہا کہ میری جانب سے زمین ہے فرماتے ہیںکہ حضور نے زمین والے کو لغو قرار دیا۔اور بیل والے کو متعین اجرت دی۔اور کام والے کو ہر دن کے بدلے ایک درہم دیا اور غلہ کل کے کل بیج والے کو دیا(ب) آپۖ نے فرمایا جس نے کسی قوم کی زمین میں بغیر اجازت کے بویا تو اس کو غلے میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔اس کے لئے اس کی اجرت ہے۔

Flag Counter