Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

447 - 457
]١٧٠٠[(٢) وھی عندھما علی اربعة اوجہ اذا کانت الارض والبذر لواحد والعمل 

٣٤٠٨) اور دوسرا اثر ہے۔عن ابی جعفر قال ما بالمدینة اہل بیت ھجرة الا یزرعون علی الثلث والربع الخ (الف) (بخاری شریف، باب المزارعة بالشطر ونحوہ ص ٣١٣ نمبر ٢٣٢٨) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اہل مدینہ بٹائی کرتے تھے جس سے بٹائی کا جواز معلوم ہوا۔  نوٹ  کتاب الآثارامام محمد اور موطا امام محمد میں ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک تہائی اور چوتھائی پر کھیت کو بٹائی پر دینا مکروہ ہے،باطل نہیں ہے۔محمد قال اخبرنا ابو حنیفة عن حماد انہ سأل طاؤسا وسالم بن عند اللہ عن الزراعة بالثلث او الربع فقال لا بأس بہ فذکرت ذلک لابراھیم فکرھہ ... کان ابو حنیفة یأخذ بقول ابراھیم ونحن نأخذ بقول سالم وطاؤس لا نری بذلک بأسا (ب) (کتاب الآثار لامام محمد ،باب المزارعة بالثلث والربع ،ص ١٧٢،نمبر٧٧٤)اور موطا امام  محمدمیں ہے ۔وکان ابو حنیفة یکرہ ذلک (موطا امام محمد، باب المعاملةوالمزارعة فی النخل والارض ص ٣٥٧) اس سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک بٹائی مکروہ ہے۔عموم بلوی کی وجہ سے فتوی صاحبین کے قول پر ہے۔
]١٧٠٠[(٢) اور مزارعت صاحبین کے نزدیک چار طریقے پر ہیں (١) جب زمین اور بیج ایک کے ہوں اور کام اور بیل دوسرے کے ہوں تو مزارعت جائز ہے۔  
تشریح  یہ پہلی صورت ہے ۔اس میں زمین اور بیج ایک فریق کے ہوں اور کام اور بیل دوسرے فریق کے ہوں تو فرماتے ہیں کہ یہ صورت جائز ہے۔  
وجہ  اس باب میں دو قسم کے نظرئیے ہیں ۔ایک تو یہ ہے کہ جس کا بیج ہو پورا غلہ اسی کا ہوگا اور دوسرے فریق کی چیز گویا کہ اجرت پر لی۔مثال مذکور میں زمین اور بیج ایک کا ہے اس لئے اسی کا پورا غلہ ہوگا اور اس نے گویا کہ کام کرنے والے کو اور بیل دینے والے کو اجرت پر لیا۔اور چونکہ کام کرنے والے کو اور بیل دینے والے کو اجرت پر لے سکتا ہے اس لئے بٹائی جائز ہو گئی(٢) بیج والے کا پورا غلہ ہوگا اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔فاخبرہ رافع ان رسول اللہ ۖ اتی بنی حارثة فرای زرعا فی ارض ظھیر فقال ما احسن زرع ظھیر قالوا لیس لظھیر قال الیس ارض ظھیر؟ قالوا بلی و لکنہ زرع فلان قال فخذوا زرعکم وردوا علیہ النفقة قال رافع فاخذنا زرعنا ورددنا الیہ النفقة (ج) (ابوداؤد شریف ، باب فی التشدید فی ذلک ای فی المزارعة (١٢٥ نمبر ٣٣٩٩) اس حدیث میں حضرت ظہیر کی زمین تھی اور حضرت رافع کا بیج تھا تو پورا غلہ حضرت رافع کو دلوایا اور زمین والے کو اس کی اجرت دلوادی جس سے معلوم ہوا کہ بیج والے کا 

حاشیہ  :  (الف) ابو جعفر فرماتے ہیںمدینے میں کوئی گھر نہ تھا جو کھیتی نہ کرتا ہو تہائی اور چوتھائی پر(ب) ابو حنیفہ نے حماد سے خبر دی کہ انہوں نے حضرت طاؤس اور سالم بن عبد اللہ سے پوچھا تہائی یا چوتھائی کے بدلے میں ۔پس فرمایا اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ پھر اس کا تذکرہ حضرت ابراہیم سے کیا تو انہوں نے اس کو ناپسند کیا ... امام ابو حنیفہ حضرت ابراہیم کے قول کو لیتے تھے اور ہم سالم اور طاؤس کے قول کو لیتے تھے ۔اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے(ج) آپۖ بنی حارثہ کے پاس آئے تو حضرت ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھا۔آپۖ نے فرمایا ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے! لوگوں نے کہا کہ ظہیر کی نہیں ہے۔آپۖ نے پوچھا یہ ظہیر کی زمین نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں ! لیکن کھیتی فلاں کی ہے۔آپۖ نے لوگوں سے فرمایا اپنی کھیتی لے لو اور زمین کی اجرت دے دو۔

Flag Counter