Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

42 - 457
العیب ولا یرد المبیع الا ان یرضی البائع ان یأخذہ بعیبہ]٨٧٧[ (٧) وان قطع المشتری 

نقصان کا رجوع کرے اور مبیع واپس نہ لوٹائے مگر یہ بائع راضی ہو کہ اس کو بعینہ واپس لے لے ۔
 تشریح  مشتری نے مبیع خریدی،پھر اس کے یہاں نیا عیب پیدا ہو گیا ۔بعد میں پتہ چلا کہ بائع کے یہاں بھی ایک عیب تھا ۔اب مبیع واپس کرتے ہیں تو نئے عیب والی مبیع واپس کرنا ہوگی ۔اور نہیں کرتے ہیں تو مشتری کا حق ضائع ہوتا ہے۔اس لئے یہاں دو صورتیں ہیں ۔ایک یہ کہ صحیح سالم مبیع اور عیب دار مبیع کے درمیان جو فرق ہے وہ فرق بائع سے وصول کرے اور مبیع اپنے پاس رکھ لے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر بائع راضی ہو تو نئے عیب کے با وجود مبیع کو واپس کر دے۔لیکن اس صورت میں اس عیب دار مبیع کو لینے کے لئے بائع کا راضی ہونا ضروری ہے۔کیونکہ مشتری کے یہاں بھی ایک عیب پیدا ہو چکا ہے۔  
وجہ  اس کی دلیل یہ اثر ہے  عن ابراھیم فی الرجل یشتری عبدا بہ عیب فیحدث عند المشتری عیبا،قال یرد الداء بدائہ،واذا حدث بہ حدث فھو من مال المشتری ویرد البائع فضل ما بین الصحة والداء (الف) (مصنف عبد الرزاق ، باب العیب یحدث عند المشتری وکیف ان کان یعرف انہ قدیم  ج خامس ص ١٥٧ نمبر ١٤٧٠٣) اس اثر میں ہے کہ مشتری عیب کا نقصان وصول کر سکتا ہے۔ عبارت میں  یرد الداء بدائہ  ہے اس لئے بائع راضی ہو تو مبیع واپس کر سکتا ہے (٢)عیب دار لینابائع کا اپنا حق ہے اس لئے وہ اپنا حق ساقط کر سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اس بات پر متفرع ہے کہ کسی کا حق ضائع نہ ہو۔ اثر میں ہے  عن شریح قال عھدة السلم وان لم یشترط لا داء ولا غائلة ولا خبث ولا شین (مصنف ابن ابی شیبة ٥٤٢ فی الرجل یشتری السلعة ولا تبرأ الیہ ج خامس ص ٥، نمبر ٢٣١٦٨)اس اثر میں ہے کہ چاہے شرط بھی نہ لگائے تب بھی مسلمان دوسرے کو نہ بیماری والی مبیع دے نہ ہلاکت والی دے نہ خباثت والی دے اور نہ عیب دار مبیع دے (٣) ایک اور حدیث میں ہے کہ دھوکہ دینا ٹھیک نہیں  عن ابی ھریرة ان رسول اللہ ۖ مر علی صبرة من طعام فادخل یدہ فیھا فنالت اصابعہ بللا فقال یا صاحب الطعام ما ھذا ؟ قال اصابتہ السماء یا رسول اللہ قال افلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس ثم قال من غش فلیس منا (ب) (ترمذی شریف، باب ماجاء فی کراہیة الغش فی البیوع ص ٢٤٥ نمبر ١٣١٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اندر جو عیب ہو اس کو ظاہر کر دینا چاہئے اور کسی کو دھوکہ نہ دینا چاہئے۔اس لئے بائع یا مشتری کسی کو نقصان ہوا ہو تو حتی الامکان اس نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔  
اصول  حتی الامکان نقصان ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
]٨٧٧[(٧)اگر مشتری نے کپڑا کاٹا اور اس کو سی لیا یا کپڑے کو رنگ دیا یا ستو کو گھی میں ملا دیا پھر عیب پر مطلع ہوا تو اس کے نقصان کا رجوع 

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ ایک نے غلام خریدا اس میں عیب تھا۔ پھر مشتری کے پاس دوسرا عیب پیدا ہوا ۔فرمایا عیب دار کو پہلے عیب کے ماتحت لوٹایا جاتا، لیکن جب اس میں نیا عیب پیدا ہوا تو مبیع مشتری کا مال ہے اور بائع وہ فرق واپس کرے گا جو صحیح سالم مبیع اور عیب دار کے درمیان ہے(ب)آپۖ غلے کے ایک ڈھیر پر سے گزرے ۔آپۖ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو آپ کی انگلیوں پر اس کی تری لگی ۔آپۖ نے پوچھا غلہ والے یہ کیا ہے ؟ فرمایا یا رسول اللہ بارش ہو گئی تھی ۔آپۖ نے فرمایا تر غلہ کو اوپر کیوںنہ کر دیا ؟ تا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے۔پھر آپۖ نے فرمایا جو دھوکہ دے ہم میں سے نہیں ہے۔

Flag Counter