]١٥٧٨[(٣) فان حفظھا بغیرہم او اودعھا ضمن الاان یقع فی دارہ حریق فیسلمھا الی جارہ او یکون فی سفینة وھو یخاف الغرق فیلقیھا الی سفینة اخری]١٥٧٩[(٤) وان
ہے۔
وجہ آدمی ہر وقت گھر میں نہیں رہتا ،کبھی باہر بھی جانا پڑتا ہے۔اس لئے اگر اپنے اہل و عیال سے امانت کی حفاظت نہ کرائے گا تو کس سے کرائے گا ؟ (٢) حضورۖ نے ہجرت کے موقع پر حضرت علی سے امانت کی حفاظت کروائی ہے۔بلکہ انہیں کے ذریعہ امانت ادا کروائی ہے۔عن عائشة فی ھجرة النبی ۖ قالت امر تعنی رسول اللہ ۖ علیا ان یتخلف عنہ بمکة حتی یؤدی عن رسول اللہ ۖ الودائع التی کانت عندہ للناس (الف) (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی الترغیب فی اداء الامانات، ج سادس، ص ٤٧٢، نمبر ١٢٦٩٦) اس حدیث میں حضرت علی نے حضورکی امانت کی حفاظت کی اور اس کو لوگوںکو ادا بھی کیا اور حضرت علی آپ ۖکے عیال میں سے تھے۔اس لئے اہل و عیال سے بھی حفاظت کروا سکتا ہے۔
]١٥٧٨[(٣)پس اگر اس کی حفاظت کروائی اہل و عیال کے علاوہ سے تو ضامن ہو جائے گا مگر یہ کہ اس کے گھر میں آگ لگ جائے تو اس کو اپنے پڑوسی کے سپرد کردے یا امانت کشتی میں ہو اور اس کو ڈوبنے کا خوف ہو تو اس کو دوسری کشتی میں ڈال دے۔
تشریح امانت کی چیز کو اپنے اہل و عیال کے علاوہ سے حفاظت کراوئی تو مودع اس کا ضامن بن جائے گا۔
وجہ مالک مودع کی حفاظت سے راضی ہے اس کے علاوہ کی حفاظت سے راضی نہیں ہے ۔اس لئے دوسروں سے حفاظت کروائی اور ہلاک ہو گئی تو ضامن ہوگا۔اس اثر میں ہے عن شریح قال من استودع ودیعة فاستودعھا بغیر اذن اہلھا فقد ضمن (ب)(مصنف عبد الرزاق ، باب الودیعة ،ج ثامن ص، ١٨٢ ،نمبر ١٤٨٠٠) اس اثر میں ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر امین نے دوسرے کے پاس امانت رکھی اور ہلاک ہوئی تو وہ ضامن ہوگا۔البتہ ایسی مجبوری ہو جائے کہ پڑوسی کو دینا ضروری ہو جائے اور اس کو دینے میں حفاظت کا زیادہ امکان ہو تو مودع ضامن نہیں ہوگا۔مثلا گھر میں آگ لگ گئی ایسے موقع پر امانت کی چیز حفاظت کی نیت سے پڑوسی کے گھر میں پھینک دی اور امانت ضائع ہو گئی تو مودع ضامن نہیں ہوگا۔اسی طرح امانت کی چیز کشتی میں تھی اور اندیشہ ہوا کہ وہ چیز ڈوب جائے گی جس کی وجہ سے حفاظت کی نیت سے دوسری کشتی میں ڈال دی اور وہ ہلاک ہو گئی تو مودع ضامن نہیں ہوگا۔
اصول یہ اس اصول پر ہے کہ مجبوری ہو اور حفاظت کی غرض سے عیال کے علاوہ سے حفاظت کروائی تو مودع ضامن نہیں ہوگا۔
لغت حریق : آگ لگنا، سفینة : کشتی۔
]١٥٧٩[(٤)اگر امانت رکھنے والے نے اپنے مال کے ساتھ ایسے ملادی کہ الگ نہ ہو سکتی ہو تو اس کا ضامن ہوگا۔
حاشیہ : (الف)حضورکی ہجرت کے بارے میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضورۖ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہ مکہ مکرمہ میں ان کی نیابت کریں ۔یہاں تک کہ حضور کی امانت کو ادا کردیں جو ان کے پاس لوگوں کی ہے(ب) قاضی شریح نے فرمایا کسی نے امانت رکھی پس اس نے مالک کی اجازت کے بغیر دوسرے کے پاس امانت رکھ دی تو وہ ضامن ہو جائے گا۔