Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

341 - 457
بمال اعطوہ ایاہ والترکة عقار او عروض جاز قلیلا کان ما اعطوہ او کثیرا]١٤٨٦[ (٢٧) فان کانت الترکة فضة فاعطوہ ذھبا او ذھبا فاعطوہ فضة فھو کذلک]١٤٨٧[ (٢٨) وان کانت الترکة ذھبا و فضة وغیر ذلک فصالحوہ علی ذھب او فضة فلا بد ان 

کچھ لے کر ترکہ چھوڑ دینے پر صلح کو تخارج کہتے ہیں ۔اس کا ثبوت اس اثر میں ہے۔وقال ابن عباس لا بأس ان یتخارج الشریکان فیأخذ ھذا دینا وھذا عینا فان توی لاحدھما لم یرجع علی صاحبہ (الف) (بخاری شریف ، باب الصلح  بین الغرماء واصحاب المیراث والمجازفة فی ذلک ص ٣٧٤ نمبر ٢٧٠٩) اس اثر میں ہے کہ کچھ لے کر تخارج کر سکتا ہے (٢) ایک اور اثر میں ہے کہ عبد الرحمن بن عوف کی بیوی نے اپنی وراثت کو چھوڑا اور اسی ہزار درہم پر صلح کی۔عن عمر بن ابی سلمة عن ابیہ قال صالحت امرأة عبد الرحمن من نصیبھا ربع الثمن علی ثمانین الفا (ب) (سنن لیبیھقی ، باب صلح المعاوضة وانہ بمنزلة البیع یجوز فیہ ما یجوز فی البیع الخ ،ج سادس، ص ١٠٧،نمبر١١٣٥٥ مصنف عبدالرزاق ، باب المرأة تصالح علی ثمنھا ج ثامن ص ٢٨٩ نمبر ١٥٢٥٦) اس اثر میں حضرت عبد االرحمن کی چار بیویاں تھیں جس کی وجہ سے ایک بیوی کو پوری وراثت میں آٹھویں حصے کی چوتھائی یعنی بتیسواں حصہ ملا،اور خود وراثت میں سے تخارج کرکے اسی ہزار پر صلح کی۔  لغت  عقار  :  زمین۔
]١٤٨٦[(٢٧)اور اگر ترکہ چاندی ہے اور اس کو سونا دیا،اور سونا ہے اور اس کو چاندی دیا تو وہ ایسا ہی ہے یعنی جائز ہے۔  
تشریح  ترکہ میں چاندی ہے اور تخارج کرنے والے اور نکلنے والے کو سونا دے کر صلح کر لی۔یا ترکہ میں سونا ہے اور چاندی دے کر تخارج کیا تو جائز ہے۔  
وجہ  ترکہ میں چاندی ہے اور سونا دے کر تخارج کیا تو کم و بیش ہو تب بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔کیونکہ دو جنس ہوں تو کمی بیشی سے سود لازم نہیں آتا ہے۔اس لئے جائز ہو گیا ۔
 اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ دو جنس ہوں تو کمی بیشی سے سود لازم نہیں آئے گا۔
]١٤٨٧[(٢٨)اور اگر ترکہ سونا اور چاندی ہیں اور اس کے علاوہ ہے،پس صلح کی سونے پر یا چاندی پر تو ضروری ہے کہ جوکچھ دیا وہ زیادہ ہو اس کے اس جنس کے حصے سے تا کہ اس کا حصہ اس کے برابر ہو جائے اور جو زیادہ ہو وہ اس کے میراث سے باقی حق کے مقابلے میں ہو جائے  تشریح  اس کو مثال سے سمجھیں ۔مثلا جو آدمی میراث کے حصے سے نکلنا چاہتا ہے اس کا حصہ چاندی میں سے پانچ سو درہم ،سونے میں بیس دینار اور جائداد میں سے پانچ گائیں ملنے والے ہیں۔اب وہ چاندی لے کر اپنے حصے پر صلح کرنا چاہتا ہے تو چاندی پانچ سو درہم سے زیادہ ہو نا چاہئے تاکہ پانچ سو چاندی اس کے پانچ سو درہم کے برابر ہو جائے جو اس کو وراثت میں ملنے والے ہیں اور جو زیادہ چاندی ہووہ بیس دینار اور 

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابن عباس نے فرمایا کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ دونوں شریک نکل جائیں ،یہ قرض لے لے اور یہ عین شیء لے لے،پس اگر ایک کے لئے کسی کا حق ضائع ہو گیا تو اپنے شریک سے وصول نہیں کرے گا(ب) حضرت عبد الرحمن بن عوف کی بیوی نے اپنے آٹھویں کی چوتھائی حصے پر صلح کی اسی ہزار پر۔ 

Flag Counter