Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

340 - 457
]١٤٨٤[ (٢٥) واذا کان السلم بین الشریکین فصالح احدھما من نصیبہ علی رأس المال لم یجز عند ابی حنیفة و محمد رحمھما اللہ تعالی وقال ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی یجوز الصلح]١٤٨٥[ (٢٦) واذا کانت الترکة بین ورثة فاخرجوا احدھم منھا 

اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ عین قرض وصول کیا ہو تو اس میں سے آدھا دوسرے شریک کا ہوگا۔  
لغت  سلعة  :  سامان۔  
]١٤٨٤[(٢٥) اگر بیع سلم ہو دو شریکوں کے درمیان ،پس ان میں سے ایک نے اپنے حصے سے رأس المال پر صلح کر لی تو امام ابو حنیفہ اور محمد کے نزدیک جائز نہیں ہے ۔اور امام ابو یوسف نے فرمایا کہ جائز ہے۔  
تشریح  مثلا زید اور عمر نے ملکر خالد سے بیع سلم کی ۔اور دونوں نے ایک سو درہم ادا کیا یعنی پچاس درہم زید نے اور پچاس درہم عمر نے جس کو رأس المال کہتے ہیں۔اور عقد بھی ایک ہی ہے۔بعد میں ایک شریک مثلا زید نے اپنے حصے کے واپس لینے پر مسلم الیہ یعنی بائع سے صلح کر لی تو امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ان کا صلح کرنا اور اپنا حصہ واپس لینا بغیر شریک کی رضامندی کے جائز نہیں ہے۔  
وجہ  دونوں نے ملکر عقد سلم کیا ہے اس لئے ایک اپنے حصے کو واپس لیکر عقد سلم کو توڑنا چاہے تو جائز نہیں ہے۔کیونکہ تفریق صفقہ لازم آئے گا جو جائز نہیں ہے (٢) یہ ایک قسم کا دھوکہ بھی ہے کہ دونوں نے عقد سلم کیا اور اب ایک اپنی مرضی سے اس کو توڑ رہا ہے۔  
اصول  ان حضرات کا اصول یہ ہے کہ دوسرے کا نقصان ہو تو اپنے مال میں بھی تصرف نہیں کر سکتا۔حضرت کی نگاہ دوسرے کے نقصان کی طرف گئی۔
امام ابو یوسف فرماتے ہیں ایک شریک کا صلح کرکے رأس المال لینا جائز ہے۔  
وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ آدھا حصہ اس شریک کا ذاتی مال تھا تو جس طرح اور ذاتی مال میں اپنی مرضی سے تصرف کر سکتا ہے۔اسی طرح یہاں بھی اپنے حصے کو صلح کرکے مسلم الیہ (بائع) سے واپس لے سکتا ہے۔  
اصول  ان کا اصول یہ ہے کہ اپنے مال میں دوسرے کی مرضی کے بغیر بھی تصرف کر سکتا ہے۔اس حضرت کی نگاہ اپنے نقصان کی طرف گئی ہے۔
]١٤٨٥[(٢٦)اگر ترکہ کچھ ورثہ کے درمیان ہو ،پس انہوں نے ان میں سے ایک کو ترکہ سے نکالا کچھ مال دے کر،اور ترکہ زمین ہے یا سامان ہے تو جائز ہے ،جو کچھ دیا وہ کم ہو یا زیادہ۔  
تشریح  ایک آدمی کا انتقال ہوا اس کے بہت سے ورثہ تھے ۔لیکن ان میں سے ایک نے کچھ نقد لے کر اپنی وراثت کا حصہ چھوڑ دیا اور صلح کر لی ،تو کچھ لے کر اپنا حصہ چھوڑ دینا جائز ہے۔ پھر ترکہ مین زمین ہو یا سامان ہو اور جس پر صلح ہوئی وہ نقد ہو تو یہ نقد وراثت کے حصہ سے کم ہو یا زیادہ ہو دونوں جائز ہیں۔  
وجہ  چونکہ وراثت کا حصہ اور صلح کا نقد ایک جنس نہیں ہیں اس لئے کم زیادہ سے سود اور ربوا نہیں ہوگا۔اس لئے دونوں صورتیں جائز ہیں۔

Flag Counter