Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

338 - 457
قال صالحتک علی الفی ھذہ او علی عبدی ھذا تم الصلح ولزمہ تسلیمھا الیہ وکذلک لو قال صالحتک علی الف وسلمھا الیہ]١٤٨٠[ (٢١) وان قال صالحتک علی الف ولم یسلمھا الیہ فالعقد موقوف فان اجازہ المدعی علیہ جاز ولزمہ الالف وان لم یجزہ بطل]١٤٨١[ (٢٢) واذا کان الدین بین الشریکین فصالح احدھما من نصیبہ علی ثوب 

مصنف  نے فضولی کی ذمہ دار ی لینے کی تین صورتیں بیان کی (١) فضولی نے مال پر صلح کی اور خود مال حوالے کرنے کی ذمہ داری لے لی (٢) میرے اس ہزار پر صلح کرتا ہوں یا میرے اس غلام پر صلح کرتا ہوں  تو خود اپنے غلام پر صلح کی تو غلام یا ہزار دینے کی ذمہ داری لے لی،اب موکل کی اجازت پر موقوف نہیں رہے گا (٣) اور تیسری شکل یہ ہے کہ اپنے غلام یا اپنے ہزار کا نام نہیں لیا بلکہ مطلق ہزار پر صلح کی،لیکن اپنی جانب سے ہزار دے دیا تو فضولی کی ذمہ داری توہو گئی اس لئے بھی صلح مکمل ہو جائے گی۔  
اصول  کوئی صلح کے مال دینے کی ذمہ داری لے لے تو موکل کی اجازت کے بغیر صلح مکمل ہو جائے گی۔  
لغت  سلمھا  :  سپرد کر دیا۔
]١٤٨٠[(٢١)اور اگر کہا کہ میں آپ سے صلح کرتا ہوں ہزار پر اور اس کو ہزار سپرد نہیں کیا تو عقد صلح موقوف رہے گا،پس اگر مدعی علیہ نے اجازت دے دی تو جائز ہو جائے گی اور مدعی علیہ کو ہزار لازم ہو جائے گا اور اگر اجازت نہیں دی تو باطل ہو جائے گی۔  
تشریح  اس صورت میں فضولی نے اپنا درہم نہیں کہا ہے بلکہ مطلق ہزار درہم کہا ہے اور ہزار سپرد بھی نہیں کیا اس لئے اپنی ذمہ داری پر صلح نہیں کی اس لئے اب مدعی علیہ کی اجازت پر موقوف رہے گی۔وہ اجازت دے گا تو صلح مکمل ہو جائے گی اور اس پر ہزار لازم ہوگا ۔اور اگر اجازت نہیں دی تو صلح باطل ہو جائے گی۔  
وجہ  مدعی علیہ نے نہ فضولی کو حکم دیا تھا اور نہ بعد میں ہاں کہا۔اس لئے اس کی ذمہ داری بھی نہیں ہوئی  اس لئے صلح باطل ہو جائے گی،یہ چوتھی شکل ہے۔
]١٤٨١[(٢٢)اگر دین دو شریکوں کے درمیان ہو پس ان میں سے ایک نے اپنے حصے کے بدلے میں صلح کر لی کپڑے پر تو اس کے شریک کو اختیار ہے،اگر چاہے تو اس کا پیچھا کرے جس پر دین ہے اپنے آدھے دین کے لئے اور اگر چاہے تو آدھا کپڑا لے لے ،مگر یہ کہ اس کا شریک جوتھائی دن کا ضامن ہو جائے۔  
تشریح  اس مسئلے میں تین صورتیں ہیں جن کو ایک ساتھ بیان کر دیا ہے۔مثلا زید اور عمر کا ایک ہزار دین خالد پر تھا،زید نے اپنے حصے پانچ سو کے بدلے میں صلح کرکے کپڑا لے لیا۔اب عمر شریک کو دو اختیار ہیں۔یاتو اپنا حصہ (پانچ سو درہم) براہ راست خالد سے وصول کرے اور اس کا پیچھا کرے۔   
وجہ  کیونکہ عمر کا قرض اصل میں خالد پر ہے جس نے کپڑادیاہے۔اس لئے اس سے وصول کر سکتا ہے۔اور دوسرا اختیار یہ ہے کہ اس کا جو 

Flag Counter