Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

337 - 457
الوکیل ما صالحہ علیہ الا ان یضمنہ والمال لازم للموکل]١٤٧٩[ (٢٠) فان صالح عنہ علی شیء بغیر امرہ فھو علی اربعة اوجہ ان صالح بمال وضمَّنہ تمَّ الصلح وکذلک لو 

اور صلح کی دوسری قسم وہ ہے جس میں اسقاط نہیں ہوتا ہے بلکہ بدل اور معاوضہ کی شکل ہوتی ہے۔جیسے اقرار کے بعد مال کے بدلے مال پر صلح کرے تو اس صلح میں وکیل ذمہ دار ہوتا ہے۔  
وجہ  یہ بیع کی شکل ہو جاتی ہے اور بیع میں خود وکیل ذمہ دار ہوتا ہے۔اس لئے اس صلح میں وکیل ضامن نہ بھی ہو پھر بھی صلح کرنے کی وجہ سے وکیل ضامن ہو جائے گا۔ صلح میں وکیل بنانے کا ثبوت اس حدیث میں ہے کہ حضرت معاویہ نے عبد الرحمن بن سمرہ اور عبد اللہ بن عامر بن کریز کو صلح کا وکیل بنا کر حضرت حسن بن علی کے پاس بھیجا ۔اور انہوں نے تمام ذمہ داری لی جس کی وجہ سے حضرت حسن اور حضرت معاویہ کے درمیان صلح ہوئی جس کے بارے میں حضورۖ نے ممبر پر خوشخبری دی تھی کہ میرا یہ بیٹا دو بڑی جماعت کے درمیان صلح کرائے گا۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔قال سمعت الحسن یقول استقبل واللہ الحسن بن علی معاویة بکتائب امثال الجبال ... فبعث الیہ رجلین من قریش من بنی عبد شمس عبد الرحمن بن سمرة و عبد اللہ بن عامر بن کریز فقال (معاویة) اذھبا الی ھذا الرجل فاعرضا علیہ وقولا لہ واطلبا الیہ فاتیا ہ فدخلا علیہ فتکلما (الف) (بخاری شریف، باب قول النبی ۖ للحسن بن علی ان ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظیمتین ص ٣٧٢ نمبر ٢٧٠٤) اس حدیث میں حضرت معاویة نے دو آدمیوں کو صلح کا وکیل بنا کر حضرت حسن کے پاس بھیجا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ صلح کے لئے وکیل بنا سکتے ہیں۔
]١٤٧٩[(٢٠)پس اگر صلح کر لی اس کی جانب سے کسی چیز پر بغیر اس کے حکم کے تو وہ چار طرح پر ہیں(١) اگر صلح کی مال پر اور اس کا ضامن بن گیا تو صلح پوری ہو گئی (٢) اور ایسے ہی اگر کہا میں نے آپ سے میرے اس ہزار پر صلح کی ،یا میرے اس غلام پر صلح کی تو صلح پوری ہو گئی۔اور وکیل کو اس کی طرف مال کا سونپنا لازم ہوگا (٣) اور ایسے ہی اگر کہا میں نے آپ سے صلح کی ہزار پر اور وہ ہزار اس کو سپرد کر دیا۔  
تشریح  ایک آدمی کو مجرم یا موکل نے صلح کرنے کا حکم نہیں دیا۔اس نے اپنی جانب سے فضولی بن کر صلح کر لی۔ پس اگر صلح کے مال کی ذمہ داری لے لی ،یا اپنا مال مدعی کے حوالے کر دیا تب تو بغیر مدعی علیہ کی اجازت کے بھی صلح مکمل ہو جائے گی۔اور اگر فضولی نے اپنے اوپر مال دینے کی ذمہ داری نہیں لی اور نہ اپنا مال دیا تو صلح موکل کی اجازت پر موقوف ہوگی ۔وہ اجازت دے گا تو صلح مکمل ہوگی۔اور اگر اجازت نہیں دی تو صلح باطل ہو جائے گی۔  
وجہ  جس صورت میں فضولی نے اپنے اوپر ذمہ داری لے لی تو رقم دینے کا معاملہ موکل پر نہیں رہا اس لئے اس کی اجازت کے بغیر بھی صلح مکمل ہو جائے گی۔ کیونکہ فضولی نے صلح کر لی ہے اور رقم بھی دے دی ہے۔
 
حاشیہ  :  (الف)حضرت حسن بن علی فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے حضرت معاویہ کا استقبال اتنے خطوط سے کیا جو پہاڑ کے طرح ہو گئے تھے ... پس حضرت معاویہ نے حضرت حسن  کے پاس قریش کے بنی عبد شمس کے دو آدمیوں کو بھیجا  عبد الرحمن بن سمرة اور عبد اللہ بن عامر کو۔ پس حضرت معاویہ نے فرمایااس آدمی کے پاس جاؤ اور ان پر صلح پیش کرو،ان سے لجاجت کرو اور ان کو میرے پاس لاؤ،پس وہ دونوں حضرت حسن کے پاس آئے اور ان پر داخل ہوئے اور بات کی۔

Flag Counter