Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

336 - 457
علی خمس مائة حالة لم یجز]١٤٧٧[ (١٨) ولو کان لہ الف درہم سود فصالحہ علی خمس مائة بیض لم یجز]١٤٧٨[ (١٩) ومن وکل رجلا بالصلح عنہ فصالحہ لم یلزم 

کرنے کی شرط لگائی تو جائز نہیں ہے ۔
 وجہ  تاخیر کی قیمت کم ہے اور جلدی ادا کرنے کی قیمت زیادہ ہے ۔پس جب تاخیر کے بدلے جلدی ادا کرنے کی شرط لگائی تو چاہے ہزار کے بدلے پانچ سو لیا لیکن تاخیر کے بدلے جلدی لیا تو اسقاط کرنا اور معاف کرنا نہیں ہوا بلکہ بدلہ اور معاوضہ ہو گیا ۔اور درہم کے بدلے درہم ہوں تو برابر ہونا چاہئے۔کم و بیش کرنا سود ہے اس لئے جائز نہیں ہوگا(٢) اثر میں اس کی ممانعت ہے۔عن ابی صالح عبید مولی السفاح انہ اخبرہ انہ باع بزا من اصحاب دار بحلة الی اجل ثم اراد الخروج  فسألھم ان ینقذوہ ویضع عنھم فسأل زید بن ثابت عن ذلک فقال لا امرک ان تأکل ذلک ولا توکلہ (الف) مدونة مالک ج ثالث ص ١٩١ اعلاء السنن نمبر ٥٢٠٧)۔  اصول  اوپر گزر گیا کہ سود کی شکل ہو تو صلح جائز نہیں ہے۔  
لغت  مؤجلة  :  تاخیر کے ساتھ۔  حالة  :  جلدی کے ساتھ،فوری طور پر، فی الحال۔
]١٤٧٧[(١٨) اگر کسی کا ہزار درہم کھوٹے تھے ،پس پانچ سو عمدہ درہموں پر صلح کی تو جائز نہیں ہے۔  
وجہ  کھوٹے درہم کی قیمت کم ہے اور عمدہ درہم کی قیمت زیادہ ہے اس لئے جب کھوٹے کے بدلے عمدہ لیا تو اسقاط نہیں کیا بلکہ بدلہ کیا اور معاوضہ کیا اور درہم کے بدلے میں درہم ہو تو برابر ہونا چاہئے ورنہ تو سود ہوگا۔ یہاں ہزار کے بدلے پانچ سو درہم ہیں اس لئے سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔  
اصول  اوپر گزر گیا کہ سود کی شکل مین صلح جائز نہیں۔   
لغت  سود  :  کالا، کھوٹا درہم۔  بیض  :  سفید ، عمدہ درہم،کھرا درہم۔
]١٤٧٨[(١٩) کسی نے کسی آدمی کو اپنی جانب سے صلح کرنے کا وکیل بنایا ،پس وکیل نے صلح کی تو وکیل کو لازم نہیں ہوگی وہ چیز جس پر صلح ہوئی،مگر یہ کہ وکیل اس کا ضامن بن جائے اور مال موکل پر لازم ہے۔  
تشریح  صلح کی دو صورتیں ہیں۔ایک وہ صلح جس میں صلح کے ذریعہ اپنے کچھ حقوق ساقط کرنا ہے۔جیسے ہزار روپے قرض تھے اس میں کچھ ساقط کر کے پانچ سو روپے لئے۔یا قتل عمد کیا تھا جس کی وجہ سے قصاص لازم تھا اور اس کو ساقط کرکے کچھ رقم لینی ہے تو اسقاط کی صورتوں میں صلح کرنے کا وکیل سفیر محض ہوتا ہے اور صرف موکل کی بات پہنچا دیتا ہے۔اس لئے صلح کے مال کی ذمہ داری اس پر نہیں ہوگی۔بلکہ مال کی ذمہ داری موکل پر ہوگی ۔ہاں ! وکیل صلح کے مال کا ضامن ہو جائے تو ضمانت کی وجہ سے اس پر ذمہ داری آئے گی ورنہ نہیں۔جس طرح نکاح میں وکیل سفیر محض ہوتا ہے اور مہر اور نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر عائد ہو جاتی ہے۔

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابو صالح عبید دار بجلہ والوں سے ایک مدت کے لئے کپڑا بیچا ۔پھر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا ،پس ان لوگوں نے کہا کہ نقد رقم دے دیںاور اس سے کچھ رقم کم کر دوں گا۔پس اس کے بارے میں حضرت زید سے پوچھا تو فرمایا کہ میں اس کا حکم نہیں دوں گا کہ تم اس کو کھاؤ یا کھلاؤ ۔

Flag Counter