Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

335 - 457
درہم جیاد فصالحہ علی خمس مائة زیوف جاز وصار کانہ ابرأہ عن بعض حقہ ]١٤٧٤[ (١٥) ولو صالحہ علی الف مؤجلة جاز وکانہ اجل نفس الحق]١٤٧٥[ (١٦) ولو صالحہ علی دنانیر الی شھر لم یجز]١٤٧٦[ (١٧) ولو کان لہ الف مؤجلة فصالحہ 

کرنے کی شرط لگائی تو جائز نہیں ہے ۔
 وجہ  تاخیر کی قیمت کم ہے اور جلدی ادا کرنے کی قیمت زیادہ ہے ۔پس جب تاخیر کے بدلے جلدی ادا کرنے کی شرط لگائی تو چاہے ہزار کے بدلے پانچ سو لیا لیکن تاخیر کے بدلے جلدی لیا تو اسقاط کرنا اور معاف کرنا نہیں ہوا بلکہ بدلہ اور معاوضہ ہو گیا ۔اور درہم کے بدلے درہم ہوں تو برابر ہونا چاہئے۔کم و بیش کرنا سود ہے اس لئے جائز نہیں ہوگا(٢) اثر میں اس کی ممانعت ہے۔عن ابی صالح عبید مولی السفاح انہ اخبرہ انہ باع بزا من اصحاب دار بحلة الی اجل ثم اراد الخروج  فسألھم ان ینقذوہ ویضع عنھم فسأل زید بن ثابت عن ذلک فقال لا امرک ان تأکل ذلک ولا توکلہ (الف) مدونة مالک ج ثالث ص ١٩١ اعلاء السنن نمبر ٥٢٠٧)۔  اصول  اوپر گزر گیا کہ سود کی شکل ہو تو صلح جائز نہیں ہے۔  
لغت  مؤجلة  :  تاخیر کے ساتھ۔  حالة  :  جلدی کے ساتھ،فوری طور پر، فی الحال۔
]١٤٧٧[(١٨) اگر کسی کا ہزار درہم کھوٹے تھے ،پس پانچ سو عمدہ درہموں پر صلح کی تو جائز نہیں ہے۔  
وجہ  کھوٹے درہم کی قیمت کم ہے اور عمدہ درہم کی قیمت زیادہ ہے اس لئے جب کھوٹے کے بدلے عمدہ لیا تو اسقاط نہیں کیا بلکہ بدلہ کیا اور معاوضہ کیا اور درہم کے بدلے میں درہم ہو تو برابر ہونا چاہئے ورنہ تو سود ہوگا۔ یہاں ہزار کے بدلے پانچ سو درہم ہیں اس لئے سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔  
اصول  اوپر گزر گیا کہ سود کی شکل مین صلح جائز نہیں۔   
لغت  سود  :  کالا، کھوٹا درہم۔  بیض  :  سفید ، عمدہ درہم،کھرا درہم۔
]١٤٧٨[(١٩) کسی نے کسی آدمی کو اپنی جانب سے صلح کرنے کا وکیل بنایا ،پس وکیل نے صلح کی تو وکیل کو لازم نہیں ہوگی وہ چیز جس پر صلح ہوئی،مگر یہ کہ وکیل اس کا ضامن بن جائے اور مال موکل پر لازم ہے۔  
تشریح  صلح کی دو صورتیں ہیں۔ایک وہ صلح جس میں صلح کے ذریعہ اپنے کچھ حقوق ساقط کرنا ہے۔جیسے ہزار روپے قرض تھے اس میں کچھ ساقط کر کے پانچ سو روپے لئے۔یا قتل عمد کیا تھا جس کی وجہ سے قصاص لازم تھا اور اس کو ساقط کرکے کچھ رقم لینی ہے تو اسقاط کی صورتوں میں صلح کرنے کا وکیل سفیر محض ہوتا ہے اور صرف موکل کی بات پہنچا دیتا ہے۔اس لئے صلح کے مال کی ذمہ داری اس پر نہیں ہوگی۔بلکہ مال کی ذمہ 

حاشیہ  :  (الف) جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیںکہ ان کے والد کا انتقال ہوا اور ان پر یہودی کے ایک آدمی کا تیس وسق کھجور قرض چھوڑا۔پس حضرت جابر نے مہلت مانگی ۔پس یہودی نے انکار کیا۔پھر حضرت جابر نے حضورۖ سے بات کی تا کہ سفارش کرے۔پس حضورآئے اور یہودی سے بات کی اپنے قرض کے بدلے ایک کھجور کے درخت کا پھل لے لے۔لیکن یہودی نے انکار کیا۔

Flag Counter