Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

334 - 457
انہ عبدہ فصالحہ علی مال اعطاہ جازوکان فی حق المدعی فی معنی العتق علی مال ]١٤٧٣[(١٤) وکل شیء وقع علیہ الصلح وھو مستحق بعقد المداینة لم یحمل علی المعاوضة وانما یحمل علی انہ استوفی بعض حقہ واسقط باقیہ کمن لہ علی رجل الف 

تشریح  ایک آدمی نے ایک آدمی پر دعوی کیا کہ یہ میرا غلام ہے۔اس نے انکار کیا ،بعد میں کچھ دے کر صلح کر لی تو مدعی کے لئے یہ رقم لینا جائز ہے۔  
وجہ  غلام تو یہ سمجھ کر دے رہا ہے کہ میں جان چھڑانے کے لئے دے رہا ہوں۔اور مدعی کے حق میں یوں سمجھا جائے گا کہ یہ واقعی اس کا غلام تھا اور مدعی نے صلح کا مال لے کر اس کو آزاد کیا۔اور مال لے کر آزاد کرنا جائز ہے۔ اس لئے مدعی کا مال لینا جائز ہے۔  
اصول  پہلے گزر چکا ہے کہ جہاں جہاں مدعی اور مدعی علیہ میں جوڑ ہو سکتا ہو تو بات مان لی جائے گی اور جہاں جوڑ نہ ہو سکتا ہو تو الگ فیصلہ کیا جائے گا۔
]١٤٧٣[(١٤)ہر وہ چیز جس پر صلح واقع ہو اور اس میں وہ دین کے عقد سے مستحق ہو تو وہ معاوضہ پر حمل نہیں کیا جائے گا بلکہ حمل کیا جائے گا اس بات پر کہ بعض حق کو لیا اور باقی کو ساقط کر دیا ۔جیسے کسی کا کسی آدمی پر ہزار درہم عمدہ ہوں،پس اس سے صلح کی پانچ سو کھوٹے پر تو جائز ہے۔اور ہو گیا گویا کہ اس کو بری کر دیا بعض حق سے۔  
تشریح  عقد مداینت کا مطلب یہ ہے کہ درہم ، دینار وغیرہ قرض دیا ہو یا کوئی چیز درہم ،دینار کے بدلے بیچی ہو اور وہ مشتری پر قرض ہو ۔اب درہم یا دینار قرض کے بدلے صلح کرنا چاہتا ہے تو اگر عدد کے اعتبار سے یا صفت کے اعتبار سے یا مدت کے اعتبار سے کم اور گھٹیا پر صلح کر رہا ہو تو اس کو درہم کے بدلے درہم شمار نہیں کریںگے ا ور معاوضہ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ معاوضہ کہیں گے تو برابر سرابر ہونا ضروری ہے  ورنہ سود لازم آئے گاجو حرام ہے ۔اس لئے یوں تاویل کریںگے کہ مدعی نے کچھ حق لیا اور کچھ ساقط کر دیا۔مثلا کسی آدمی کا کسی آدمی پر ایک ہزار عمدہ درہم قرض تھے۔اس نے پانچ سو گھٹیا اور کھوٹا درہم پر صلح کی تو یوں سمجھا جائے گا کہ عدد کے اعتبار سے باقی پانچ سو چھوڑ دیا اور صفت کے اعتبار سے عمدہ کو ساقط کرکے گھٹیا لیا۔یوں نہیں کہیںگے کہ ایک ہزار درہم کے بدلے پانچ سو درہم لیا۔اگر ایسا کہیں تو سود لازم آئے گا جو حرام ہے ۔
 وجہ  عدد کے اعتبار سے قرض ساقط کرنے کا ثبوت یہ حدیث ہے۔عن کعب ابن مالک انہ کان لہ علی عبد اللہ بن ابی حدرد الاسلمی مال فلقیہ فلزمہ حتی ارتفعت اصواتھا فمر بھما النبی ۖ فقال یا کعب فاشار بیدہ کانہ یقول النصف فاخذ نصف مالہ علیہ وترک نصفا (الف) (بخاری شریف ، باب ھل یشیر الامام بالصلح ص ٢٧٣ نمبر ٢٧٠٦) اس حدیث میں حضرت کعب نے حضورۖ کے کہنے پر آدھے دین پر صلح کر لی۔اور حدیث میں ترک نصفا سے معلوم ہوا کہ آدھا چھوڑ دیا۔

حاشیہ  :  (الف)کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ اس کا عبد اللہ بن حدرد پر کچھ مال تھا،پس حضرت کعب نے ان سے ملاقات کی اور اس کے پیچھے لگ گئے۔یہاں تک کہ دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔پس وہاں سے حضور گزرے اور کہا اے کعب  ! اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔گویا کہ فرما رہے ہیں کہ آدھا قرض لے لو۔پس اس پر کا آدھا مال لیا اور آدھا چھوڑ دیا۔

Flag Counter