Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

332 - 457
ولا یجوز من دعوی حد۔

وجہ  قاطع کا مال ہے وہ خرچ کرکے اپنا عضو بچا سکتا ہے ۔اور مقطوع کو حق ہے کہ قصاص معاف کرکے مال پر راضی ہو جائے (٢) آیت میں اس کا ثبوت ہے۔ یاایھا الذین آمنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی فمن عفی لہ من اخیہ شیء فاتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان ذلک تخفیف من ربکم ورحمة (الف) (آیت ١٧٨ سورة البقرة ٢) اس آیت میں ہے کہ قصاص اور جنایت عمد معاف کر سکتا ہے اور اس کے بدلے میں کچھ لے سکتا ہے۔تو اسی پر قیاس کرکے جنایت خطا کے بدلے میں بھی کچھ لے سکتا ہے اور صلح کر سکتا ہے (٣)جنایت اور دیت کو معاف کرکے صلح کرنے پر یہ حدیث دال ہے۔ ان انسا حدثھم ان الربیع وھی ابنة النضر کسرت ثنیة جاریة فطلبوا الارش وطلبوا العفو فابوا فاتوا النبی ۖ فامرھم بالقصاص فقال انس بن النضر اتکسر ثنیة الربیع یا رسول اللہ؟لا والذی بعثک بالحق لا تکسر ثنیتھا فقال یا انس کتاب اللہ القصاص فرضی القوم وعفوا فقال النبی ۖ ان من عباد اللہ من لوا قسم علی اللہ لابرأہ(ب) (بخاری شریف ، باب الصلح فی الدیة ص ٣٧٢ نمبر ٢٧٠٣)اس حدیث میں قصاص کو معاف کرکے ارش پر صلح کی۔جس سے صلح کے جواز کا پتہ چلا۔
اور حد کو جلدی ثابت نہ کیا جائے بلکہ تھوڑے سے شبہ کی وجہ سے ساقط کر دیا جائے ۔لیکن جب حد ثابت ہو جائے تو نہ اس کو معاف کر سکتا ہے اور نہ اس کے بدلے رقم لے کر صلح کر سکتا ہے۔  
وجہ  حد اصل میں اللہ کا حق ہے۔ اور اللہ کا حق اللہ ہی معاف کر سکتا ہے دوسرا کوئی نہیں ۔اس لئے نہ اس کو معاف کر سکتا ہے اور نہ اس پر صلح کر سکتا ہے(٢) صلح نہ کرنے اور معاف نہ کرنے پر وہ احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں حضورۖ کے پاس سفارش کے لئے حضرت اسامہ آئے تو آپۖ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہ بھی چراتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا،حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن عائشة ان قریشا اھمتھم المرأة المخزومیة التی سرقت ... فقال یا ایھا الناس انما ضل من کان قبلکم انھم کانوا اذا سرق الشریف ترکوہ واذا سرق الضعیف فیھم اقاموا علیہ الحد وایم اللہ لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد یدھا (الف) (بخاری شریف ، باب کراہیة الشفاعة فی الحد اذا رفع الی السلطان ص ١٠٠٣ نمبر ٦٧٨٨) اس حد میں حد سے سفارش کرنے پر آپۖ نے ناراضگی 

حاشیہ  :  (الف) اے ایمان والوتم پر قصاص فرض کیا گیا ہے مقتول کے بارے میں۔آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے،عورت عورت کے بدلے ،پس اگر بھائی کی جانب سے کچھ معاف کر دیا جائے تو باقی میں معروف کے ساتھ تقاضا کیا جائے گا۔اور اس کی طرف احسان کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔یہ تمہارے رب کی جانب سے تخفیف ہے اور رحمت ہے (ب) ربیع بنت نضر فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک باندی کا دانت توڑا۔پس لوگوں نے ارش مانگااور معافی طلب کی۔تو انکار کیا ،پس وہ حضورۖ کے پاس آئے،پس ان کو قصاص کا حکم دیا۔پس انس بن نضر نے فرمایا اے اللہ کے رسول ! کیا ربیع کا دانت توڑیںگے ؟ قسم اس ذات کی جس نے آپۖ کو حق کے ساتھ بھیجا ،آپۖ اس کے دانت کو نہیں توڑیںگے۔آپۖ نے فرمایا اے انس ! اللہ کا فرض تو قصاص ہے۔پھر قوم راضی ہو گئی اور معاف کر دیا۔آپۖ نے فرمایا اللہ کے بندوں میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قسم کھالے تو اللہ اس کو بری کر دیتے ہیں(ج) قریش کو مخزومیہ عورت کے بارے میں فکر ہوئی جس نے چوری کی تھی... پس آپۖ نے فرمایا اے لوگو ! تم لوگوں سے پہلے جو لوگ گمراہ ہوئے ہیں ان کے یہاں یہ تھا کہ جب شریف لوگ چراتے تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کمزور چراتے تو اس پر حد قائم کرتے۔ خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ۖ بھی چراتی تو محمد اس کا ہاتھ ضرور کاٹتا۔

Flag Counter