Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

331 - 457
ورجع بالخصومة فیہ]١٤٦٨[ (٩) وان ادعی حقا فی دار ولم یبینہ فصولح من ذلک علی شیء ثم استحق بعض الدار لم یرد شیئا من العوض لان دعواہ یجوز انیکون فیما بقی]١٤٦٩[ (١٠) والصلح جائز من دعوی الاموال والمنافع وجنایة العمد والخطا 

اور آدھا مکان مستحق نکلا تھا تو آدھی گائے عمر کو واپس دے گا۔اور آدھا مکان زید مستحق سے مقدمہ کرکے واپس لے گا۔  
اصول  اوپر گزر گیا۔  
لغت  المتنازع فیہ  :  اس سے مراد وہ مکان ہے جس میں زید، عمر اور بعد میں مستحق جھگڑا کرتے رہے اور جس کی وجہ سے صلح ہوئی تھی۔  رجع المدعی بالخصومة  :  سے مراد زید مدعی ہے جو مستحق پر مقدمہ کرکے اپنا حصہ وصول کرے گا۔  رد العوض  :  مکان،مصالح عنہ کے عوض میں عمر نے جو گائے دی تھی وہ گائے زید عمر کی طرف سے واپس لے گا۔
]١٤٦٨[(٩)اگر مدعی نے گھر میں حق کا دعوی کیا اور اس کی تفصیل بیان نہیں کی ۔پس صلح کی اس کے بدلے میں کسی چیز پر ،پھر مستحق نکل گیا بعض گھر کا تو عوض میں سے کچھ واپس نہین کرے گا۔اس لئے کہ اس کا دعوی جائز ہے کہ فیما بقی مین ہو ۔
 تشریح  مثلا زید نے عمر سے کہا کہ تمہارے قبضے کے گھر میں میرا حق ہے ۔لیکن کتنا حق ہے یہ بیان نہیں کیا ۔پھر عمر نے زید کو گائے دے کر صلح کی۔ بعد میں اس مکان میں کسی کا کچھ حق نکل گیا تو عمر زید سے گائے واپس نہیں لے سکتا ۔
 وجہ  کیونکہ جو کچھ مکان میں سے عمر کے پاس باقی رہ گیا ہے زید کہہ سکتا ہے کہ اتنا ہی حق میرا تھا جو تمہارے پاس رہ گیا ہے اور اسی پر صلح کرکے گائے لی ہے۔ہاں اگر پورا مکان کسی کا مستحق نکل گیا تو عمر اب زید سے گائے واپس لے سکتا ہے۔کیونکہ جب پورا مکان کسی کاحق نکل گیا تو معلوم ہوا کہ زید کا تھوڑا حصہ بھی مکان میںنہیں تھا اور اس نے عمر سے جو گائے لی تھی وہ بغیر کسی حق کے لی تھی۔اس لئے عمر زید سے اپنی دی ہوئی گائے واپس لے سکتا ہے۔  
اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ اگر مدعی اور مدعی علیہ کی باتوں میں جوڑ پیدا ہو سکتا ہو تو کر دیا جائے گا ورنہ بعد میں فیصلہ ہوگا۔ 
]١٤٦٩[(١٠) صلح جائز ہے مال کے دعوی سے اور منافع کے دعوی سے ۔جنایت عمد اور جنایت خطا کے دعوی سے۔اور نہیں جائز ہے حد کے دعوی سے۔  
تشریح  کسی نے مال کا دعوی کیا ۔اس کے بدلے میں کچھ دے کر صلح کر لی تو جائز ہے۔اور یہ بیع کے درجے میں ہوگی۔یا منافع کا کسی نے دعوی کیا اور اس کے بدلے میں کچھ دے کر صلح کرلی تو جائز ہے۔ اور یہ صلح اجارہ کے درجے میں ہوگی۔ان دونوں کی دلیل پہلے گزر چکی ہے۔جنایت عمد کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر کسی کا عضو کاٹ دیا جس کی وجہ سے اس پر عضو کاٹنے کا قصاص تھا۔ اس قصاص کے بدلے میں دونوں نے مال پر صلح کرلی تو جائزہے ۔اور جنایت خطا کی صورت یہ ہے کہ غلطی سے کسی نے کسی کا عضو کاٹ دیا جس کی وجہ سے اس پر دیت کا مال واجب تھا۔ لیکن بعد میں قاطع اور مقطوع نے کم مال پر صلح کر لی تو یہ جائز ہے۔   
 
Flag Counter