Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

326 - 457
]١٤٥٩[ (٨) ویکرہ السفاتج وھو قرض استفاد بہ المقروض امن خطر الطریق۔

کا دعوی کر رہا ہے اور اس کے پاس اس پر بینہ نہیں ہے اور محیل اس کا منکر ہے اس لئے قسم کے ساتھ اس کی بات مانی جائے گی۔
]١٤٥٩[(٨) سفاتج مکروہ ہے اور وہ قرض ہے کہ اس کا دینے والا راستے کے خطرے سے محفوظ ہو جائے۔  
تشریح  سفاتج کی شکل یہ ہے کہ مثلا لندن میں پونڈ قرض دیدے اور کہے کہ انڈیا میں یہ قرض فلاں آدمی کو واپس دے دینا۔ اور قرض لینے والا اس کو قبول کر لے تو یہ مکروہ ہے ۔
 وجہ  قرض دینے والے کو اب یہ خطرہ نہیں ہے کہ میرا پونڈ ضائع ہوگا۔کیونکہ اب جو کچھ بھی ضائع ہوگا وہ قرض لینے والے کا ہوگا۔قرض دینے والے نے قرض دے کر یہ فائدہ اٹھایا کہ راستے کے خطرات سے محفوض کر لیا (٢) اثر میں ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ عن زینب قالت اعطانی رسول اللہ ۖ خمسین وسقا تمرا بخیبر وعشرین شعیرا قالت فجاء نی عاصم بن عدی فقال لی ھل لک ان اوتیک ما لک بخیبر ھھنا بالمدینة فاقبضہ منک بکیلہ بخیبر فقالت لا حتی اسأل عن ذلک قالت فذکرت ذلک لعمر بن الخطاب فقال لا تفعلی فکیف لک بالضمان فیما بین ذلک (الف) سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی السفاتج، ج خامس، ص ٥٧٦،نمبر١٠٩٤٥) اس اثر میں ہے کہ حضرت عمر نے خیبر میں مال دے کر مدینہ میں لینے سے منع فرمایا(٣)اثر میں ہے ۔عن فضالة بن عبید صاحب النبی ۖ انہ قال کل قرض جر منفعة فھو وجہ من وجوہ الربا (ب) (سنن للبیھقی ، باب کل قرض جر منفعة فھو ربا، ج خامس ،ص ٥٧٣،نمبر١٠٩٣٣  مصنف ابن ابی شیبة ٧٩ من کرہ کل قرض جر منفعة ج خامس  ص ٨٠ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ہر قرض جس سے نفع حاصل کیا گیا ہو وہ سود کی ایک قسم ہے۔اور یہاں راستے کے خطرات سے محفوظ ہونے کا فائدہ اٹھایا ہے۔اس لئے یہ بھی سود کی ایک قسم ہوگی جس کی وجہ سے مکروہ ہے۔  
نوٹ  اگر بغیر شرط کے ایسا کیا کہ لندن میں قرض لیا اور ہندوستان میں ادا کیا تو مکروہ نہیں ہے۔ان کی دلیل یہ اثر ہے۔ ان عبد اللہ بن الزبیر کان یأخذ من قوم بمکة دراہم ثم یکتب بھا الی مصعب بن الزبیر بالعراق فیأخذونھا منہ فسئل ابن عباس عن ذلک فلم یر بہ بأسا فقیل لہ ان اخذوا افضل من دراھم قال لا بأس اذا اخذوا بوزن دراھمھم (ج) (سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی السفاتج، ج خامس، ص٥٧٧،نمبر١٠٩٤٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ بغیر شرط کے ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

حاشیہ  :  (الف) حضرت زینب فرماتی ہیں کہ مجھے حضورۖ نے پچاس وسق کھجور اور بیس وسق جو خیبر میں دیئے۔ فرماتی ہیں  کہ میرے پاس عاصم بن عدی آئے اور کہا کہ کیا خیبر کے بدلے میں مدینہ میں میں مال دے دوں؟ اور میں اس کے بدلے برابر کا کیل خیبر میں آپ سے قبضہ کرلوں۔فرمانے لگی نہیں ۔ جب تک میں اس کے بارے میں پوچھ نہ لوں ۔ کہا اس کا تذکرہ عمر ابن خطاب کے سامنے کیا تو وہ فرمانے لگے ایسامت کرو۔اس لئے کہ کیا ہوگا اس ضمان کا جو راستے کے درمیان میں ہے (ب) حضورۖ کے صحابی فضالہ بن عبید فرماتے ہیں کہ ہر وہ قرض جس کی وجہ سے نفع لے وہ سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے(ج)عبد اللہ بن زبیر لوگوں سے مکہ مکرمہ میں درہم لیتے تھے۔پھر اس کی تصدیق مصعب بن زبیر کے پاس عراق لکھتے تو لوگ مصعب بن زبیر سے رقم لے لیتے ،پس اس کے بارے میں عبد اللہ بن عباس سے پوچھا تو انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔پھر ان سے کہا گیا اس سے افضل درہم لیتے ہیں ۔تو فرمایا کہ اگر درہم کے وزن کے برابر ہے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

Flag Counter