Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

324 - 457
باحد الامرین اما ان یجحد الحوالة ویحلف ولا بینة علیہ او یموت مفلسا]١٤٥٦[(٥) وقال ابو یوسف و محمد رحمھما اللہ ھذان الوجھان و وجہ ثالث وھو ان یحکم الحاکم 
بافلاسہ فی حال حیوتہ۔
 
بینہ نہ ہو یا وہ مفلس ہو کر مر جائے۔  
تشریح  امام ابو حنیفہ کے نزدیک دو باتوں میں سے ایک ہو تو حق تلف ہونا سمجھا جائے گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ محتال علیہ یعنی ضامن حوالہ کا انکار کردے کہ میںنے قرض ادا کرنے کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔اس پر وہ قسم بھی کھالے اور قرض خواہ محتال لہ کے پاس اس پر کوئی گواہ بھی نہ ہو کہ ہاں قرض کا ذمہ دار بنا تھا۔اب چونکہ قرض وصول کرنے کی کوئی شکل نہیں ہے اس لئے اب اصل مقروض سے وصول کرے گا۔اور دوسری شکل یہ ہے کہ محتال علیہ مفلس ہو کر انتقال کیا ہو۔ اب اس کے پاس کوئی چیز ہے ہی نہیں اور نہ وہ زندہ ہے کہ اس سے وصول کر سکے۔اس لئے اب اصل مقروض یعنی محیل سے وصول کرے گا۔  
وجہ  اثر میں اس کا ثبوت ہے کہ مفلس مرنے سے قرض اصل مقروض کی طرف لوٹ جاتا ہے۔عن الحکم بن عتبة قال لایرجع فی الحوالة الی صاحبہ حتی یفلس او یموت ولا یدع فان الرجل یوسرمرة ویعسر مرة (الف) مصنف ابن ابی شیبة ٨٤ فی الحوالة الہ ان یرجع فیھا ،ج رابع، ص ٣٣٦،نمبر٢٠٧١٦) اس اثر میں ہے کہ مفلس بن کر مر جائے تو قرض اصل مقروض سے وصول کیا جائیگا۔  
لغت  یجحد  :  انکار کر جائے۔
]١٤٥٦[(٥)امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا یہ دو وجہ اور تیسری وجہ بھی ہے ۔وہ یہ کہ حاکم حکم لگادے اس کی مفلسی کا اس کی زندگی میں  تشریح  دو وجہ کے علاوہ تیسری یہ بھی ہے جس کی وجہ سے محتال لہ اصل مقروض یعنی محیل سے قرض وصول کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حاکم مقروض کی زندگی میں اس کے مفلس ہونے کا فیصلہ کردے ۔
 وجہ  (١) ان کی دلیل اوپر کا اثر ہے جس میں ہے ۔قال لایرجع فی الحوالة الی صاحبہ حتی یفلس۔جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں محتال علیہ مفلس ہو جائے تب بھی اصل مقروض سے قرض وصول کر سکتا ہے (٢)عن الحسن قال اذا احتال علی ملی ثم افلس بعد فھو جائز علیہ (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٨٤ فی الحوالة الہ ان یرجع فیھا ؟ج ،رابع، ص ٣٣٦،نمبر٢٠٧١٨ ) اس اثر میں ہے کہ اگر زندگی میں محتال علیہ مفلس ہو جائے تو محتال لہ محیل یعنی اصل مقروض سے قرض وصول کر سکتا ہے۔  
اصول  امام صاحبین کے نزدیک یہ قاعدہ ہے کہ حاکم کسی کی زندگی میں افلاس کا فیصلہ کردے تو وہ مفلس بحال رہتا ہے۔اور جب وہ مفلس ہو گیا تو اصل مقروض سے قرض لے گا۔اور امام اعظم کی رائے یہ ہے کہ مال کبھی آتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے اس لئے کسی کے افلاس کے فیصلے سے 

حاشیہ  :  (الف) حکم بن عتبہ نے فرمایا حوالہ میں صاحب حوالہ سے وصول نہیں کرے گا یہاں تک کہ محتال علیہ مفلس ہو جائے اور کچھ نہ چھوڑے۔اس لئے کہ آدمی کبھی مالدار ہوتا ہے اور کبھی تنگدست ہوتا ہے(ب) حسن  نے فرمایا اگر مالدار پر حوالہ کیا پھر وہ مفلس ہو گیا تو وہ محیل پر جائز ہو گیا۔

Flag Counter