Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

225 - 457
الخلیط فان سلم الخلیط فالشفعة للشریک فی الطریق فان سلم اخذھا الجار ]١٢٣٧[(٣) والشفعة تجب بعقد البیع وتستقر بالاشھاد وتملک بالاخذ اذا سلمھا 

٤٠٢ من کان یقضی بالشفعة للجار، ج رابع، ص٢٢٧١٧)  اس حدیث سے اس ترتیب کا پتہ چلا (٢) یوں بھی مبیع میں شریک زیادہ قوی ہے۔اور حق مبیع میں شریک اس سے کم اور پڑوس ان سے بھی کم ہے اس لئے اس ترتیب سے حق شفعہ ملنا چاہئے۔ایک اور اثر ہے۔عن شریح قال الخلیط احق من الشفیع والشفیع احق من الجار والجار احق ممن سواہ (الف)مصنف ابن ابی شیبة ٤٠٢ من کان یقضی بالشفعة للجار ج خامس ص ٣٢٦) اس اثر سے بھی ترتیب کا پتہ چلا۔  
لغت  سلم  :  سپرد کر دیا ، چھوڑ دیا۔  شرب  :  زمین میں پانی پلانے کا حق،نالی۔
]١٢٣٧[(٣) شفعہ ثابت ہوتا ہے عقد بیع کے بعد اور پختہ ہوجاتا ہے گواہ بنانے سے اور مالک ہو جاتا ہے لے لینے سے جب مشتری شفیع کو دیدے یا حاکم دینے کا حکم کردے۔  
تشریح  اس عبارت میں تین باتیں بیان کی ہیں۔پہلی یہ ہے کہ حق شفعہ اس وقت ہوتا ہے جب بائع اس زمین کو بیچ رہا ہو اور اپنی ملکیت سے نکال رہا ہو تب شفیع کو حق شفعہ کے ذریعہ سے اس کو لینے کا حق ہوتا ہے۔  
وجہ  (١) اگر زمین بیچ نہیں رہا ہو تو حق شفعہ کیسے ہوگا ؟ (٢) حدیث میں ہے۔عن جابر قال قال رسول اللہ ۖ ... فان باع فھو احق بہ حتی یوذنہ (ب) (ابو داؤد شریف ،باب فی الشفعة ص ١٤٠ نمبر ٣٥١٣ ) حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بیچے تب شفیع کو حق شفعہ ہوگا (٣) اثر میں ہے ۔قال ابن ابی لیلی لا یقع لہ شفعة حتی یقع البیع فان شاء اخذ وان شاء ترک(ج)(٣) (مصنف عبد الرزاق ، باب الشفیع یأذن قبل البیع وکم وقتھا ،ج ثامن ،ص ٨٣، نمبر ١٤٤٠٤)اس اثر میں ہے کہ بیع واقع ہو تب حق شفعہ ہوگا ورنہ نہیں۔دوسری بات یہ بیان کی کہ شفعہ کے ذریعہ زمین لینے پر شفیع فوری طور پر گواہ بنائے تب حق شفعہ مضبوط ہوگا۔کیونکہ آگے قاضی کے ذریعہ اپنے لئے شفعہ کا فیصلہ بھی کروانا ہے اس لئے اس بات پر گواہ نہیں بنایا کہ ہاں میں نے علم ہوتے ہی کہا تھا کہ اس زمین کو لوں گا توحق شفعہ ساقط ہو جائے گا ۔
 وجہ  دوسرے کی زمین اپنے لئے کرنا ہے  اس لئے علم ہونے کے بعد ذرا سا بھی اعراض کرے گا تو حق شفعہ ساقط ہو جائے گا (٢)حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ۖ الشفعة کحل العقال (د) (ابن ماجہ شریف ، باب طلب الشفعة ص ٣٥٨ نمبر ٢٥٠٠سنن للبیھقی ، باب روایة الفاظ منکرة یذکرھا بعض الفقھاء فی مسائل الشفعة، ج سادس، ص١٧٨،نمبر١١٥٨٩)اس حدیث میں شفعہ کا معاملہ ایسا ہے جیسے اونٹ کی رسی کو کھولنا یعنی اس کو جلدی سے طلب کرو ورنہ حق ساقط ہو جائے گا (٣) اثر میں ہے۔عن الشعبی قال من 

حاشیہ  :  (الف) حضرت شریح نے فرمایا شریک فی المبیع زیادہ حقدار ہے شفیع سے اور شفیع زیادہ حقدار ہے پڑوس سے اور پڑوس زیادہ حقدار ہے اس کے علاوہ سے  نوٹ  :  یہاں شفیع سے مراد راستے میں شریک ہے(ب)آپۖ نے فرمایا ...پس اگر زمین بیچی تو شفیع زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ وہ اس کو اطلاع دے(ج)حضرت ابن ابی لیلی نے فرمایا شفیع کے لئے حق شفعہ نہیں ہوگا یہاں تک کہ بیع واقع ہو۔پس اگر چاہے تو لے اور چاہے تو چھوڑ دے(د) آپۖ نے فرمایا شفعہ رسی کھولنے کی طرح ہے۔

Flag Counter