Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

224 - 457
والطریق ثم للجار ]١٢٣٦[(٢)ولیس للشریک فی الطریق والشرب والجارشفعة مع 

ہر ایک کو حق کی دلیل یہ احادیث ہیں۔ عن جابر قال قضی رسول اللہ بالشفعة فی کل شرکة لم تقسم ربعة او حائط لا یحل لہ ان یبیع حتی یوذن شریکہ فان شاء اخذ وان شاء ترک فاذا باع ولم یوذنہ فھو احق بہ (الف)(مسلم شریف ، باب الشفعة ص ٢٠ نمبر ٤١٢٨١٦٠٨ ابو داؤد شریف ، باب فی الشفعة ص ١٤٠ نمبر ٣٥١٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریک کو حق شفعہ ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین اور باغ جو غیر منقول جائداد ہیں ان میں حق شفعہ ہے۔اور پڑوس کو حق شفعہ ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن سمرة عن النبی ۖ جار الدار احق بدار الجار او الارض (ب) (ابوداؤد شریف، باب فی الشفعة ص ١٤٠ نمبر ٣٥١٧ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الشفعة ص ٢٥٣ نمبر ١٣٦٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پڑوس کو بھی حق شفعہ ہے۔  
فائدہ  امام شافعی کے نزدیک صرف شریک فی المبیع اور شریک فی حق المبیع یعنی مبیع کے راستے اور پانی پلانے کے حق میں شریک ہیں صرف ان کو حق شفعہ ملتا ہے۔جو صرف پڑوس میں ہیں ان کو حق شفعہ نہیں ملتا ہے۔  
وجہ  ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن جابر بن عبد اللہ قال قضی النبی ۖ بالشفعة فی کل مالم یقسم فاذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة (ج) (بخاری شریف، باب الشفعة فیما لم یقسم فاذا وقعت الحدودفلا شفعة ص ٣٠٠ نمبر ٢٢٥٧ ابو داؤد شریف ، باب فی الشفعة ص ١٤٠ نمبر ٣٥١٤ ترمذی شریف ، باب ماجاء اذ حدت الحدود ووقعت السھام فلا شفعة ص ٢٥٤ نمبر ١٣٧٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرکت ختم ہو جائے اور دونوں کے راستے الگ الگ ہو جائیں یعنی مبیع کے راستے میں بھی شریک نہ ہو تو اب شفعہ نہیں ہوگا۔ہماری دلیل اوپر کی حدیث ہے۔  
لغت  الخلیط  :  شریک
]١٢٣٦[(٢)راستے میں اور پانی پلانے میں شریک کے لئے اور پڑوس کے لئے حق شفعہ نہیں ہے مبیع میں شریک کے ہوتے ہوئے۔پس اگر شریک چھوڑ دے تو راستے میں شریک کے لئے ہوگا،پس اگر وہ بھی چھوڑ دے تو اس کو پڑوس لے گا ۔
 تشریح  اوپر گزر چکا ہے کہ سب سے پہلے مبیع میں شریک کو حق شفعہ ہے ۔اس کے ہوتے ہوئے حق مبیع میں شریک یا پڑوس کو حق نہیں ہے۔وہ نہ لے تو حق مبیع میں شریک کو حق شفعہ ہے۔ حق مبیع میں شریک کا مطلب یہ ہے کہ مبیع کے راستے میں شریک ہے یا مبیع میں پانی آنے کی نالی میں شریک ہے۔وہ بھی نہ ہو یا ہو لیکن نہ لینا چاہتا ہو تو پڑوس کو حق شفعہ ہے۔اور وہ بھی نہ ہو یا ہو لیکن نہ لینا چاہتا ہو تب دوسروں کو لینے کا حق ہے  وجہ  اوپر حدیث مرسل میں اس ترتیب کا تذکرہ گزر چکا ہے۔سمعت الشعبی یقول قال رسول اللہ ۖ الشفیع اولی من الجار والجار اولی من الجنب (د) (مصنف عبد الرزاق ، باب الشفعة بالجواز والخلیط احق ،ج ثامن، ص ٧٩، نمبر ١٤٣٩٠  مصنف ابن ابی شیبة 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے شفعہ کا فیصلہ کیا ہر شرکت کی چیز میں جو تقسیم نہ ہوئی ہو،زمین ہو یا باغ ہو۔نہیں حلال ہے کہ بیچے یہاں تک کہ شریک اس کی اجازت دے۔پس اگر چاہے تو شریک لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔پس اگر بیچا اور شریک کو اطلاع نہیں دی تو وہ اس مبیع کا زیادہ حق دار ہے(ب) آپۖ سے مروی ہے کہ گھر کا پڑوسی گھر اور زمین کا زیادہ حقدار ہے(ج) آپۖ نے شفعہ کا فیصلہ کیا ہر اس چیز میں جو تقسیم نہ ہوتی ہو۔پس جب حدود واقع ہو جائین اور راستے بدل جائیں تو کوئی شفعہ نہیں ہے(د) آپۖ نے فرمایا شفیع یعنی شریک زیادہ حقدار ہے پڑوس سے اور پڑوس زیادہ حقدار ہے قریب والے سے۔

Flag Counter