Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

216 - 457
للصباغ امرتک ان تصبغہ احمر فصبغتہ اصفر فالقول قول صاحب الثوب مع یمینہ فان حلف فالخیاط ضامن]١٢٢١[ (٦٦)وان قال صاحب الثوب عملتہ لی بغیر اجرة وقال الصانع باجرة فالقول قول صاحب الثوب مع یمینہ عند ابی حنیفة رحمہ اللہ۔

جائیگی۔  
وجہ  کپڑا سینے کی اجازت اور رنگنے کی اجازت کپڑے والے کی جانب سے ہوتی ہے اس لئے وہی جانتا ہے کہ کس کام کی اجازت دی جائے اس لئے اسی کی بات مانی جائے گی۔اثر میں ہے  عن الثوری فی رجل دفع الی آخر مالا مضاربة فقال صاحب المال بالثلث وقال الآخر بالنصف قال القول صاحب المال الا ان یأتی الآخر بینة (الف)(مصنف عبد الرزاق ، باب اختلاف المضاربین اذا ضرب بہ مرة  ج ثامن ص ٢٥٢ نمبر ١٥١٠٤) اس اثر میں صاحب مال کی بات مانی گئی ہے اس لئے اجارہ میں بھی صاحب مال کی بات مانی جائے گی (٢) درزی اور رنگریز مدعی ہے۔وہ دعوی کر رہا ہے کہ میرا کام صحیح ہے اس لئے مجھے اجرت ملنی چاہئے اور کپڑے والا اجرت دینے سے انکار کررہا ہے اس لئے وہ منکر ہے۔اس لئے اس پر گواہ چاہئے وہ نہیں ہے اور کپڑے والا مدعی علیہ ہے اس لئے اس کی بات قسم کے ساتھ مانی جائے گی۔پس اگر وہ قسم کھالے تودرزی اور رنگریز نقصان کے ضامن ہوںگے۔حدیث میں ہے  کتب ابن عباس الی ان النبی ۖ قضی بالیمین علی المدعی علیہ (ب)(بخاری شریف، باب الیمین علی المدعی علیہ فی الاموال والحدود ص ٣٦٦ نمبر ٢٦٦٨) اس حدیث میں ہے کہ مدعی علیہ اور منکر پر قسم ہے۔اس کی وجہ سے اس کی بات مانی جائے گی۔
]١٢٢١[(٦٦)اگر کپڑے والے نے کہا کہ تم نے اس کو میرے لئے بغیر اجرت کے کیا ہے اور کاریگر نے کہا کہ اجرت کے ساتھ تو کپڑے والے کے قول کا اعتبار ہوگا قسم کے ساتھ۔  
تشریح  کپڑے والا کہتا ہے کہ آپ نے یہ کام میرے لئے بغیر اجرت کے کیا ہے اور کام کرنے والا کہتا ہے کہ اجرت کے لئے کیا ہوں مفت نہیں کیا ہوں۔ اور اجیر کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے اور نہ کوئی علامت ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک کپڑے والے کی بات مانی جائے گی قسم کے ساتھ اور اجیر کو اجرت نہیں ملے گی۔  
وجہ  اجیر کام کرکے اجرت کا دعوی کر رہا ہے اس لئے وہ مدعی ہے اور کپڑے والا اس کا انکار کر رہا ہے اس لئے وہ منکر ہے اور قاعدہ گزر گیا کہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہوتو منکر کی بات قسم کے ساتھ مانی جاتی ہے۔اس لئے کپڑے والے کی بات قسم کے ساتھ مانی جائے گی (٢)اوپر کی حدیث بخاری کے ساتھ یہ حدیث بھی ثبوت ہے۔عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان رسول اللہ ۖ قال البینة علی من ادعی والیمین علی من انکر الا فی القسامة (ج) (دار قطنی،کتاب الحدود والدیات ج ثالث س ٨٨ نمبر ٣١٦٦)

حاشیہ  :  (الف) حضرت ثوری نے فرمایا کوئی آدمی دوسرے کو مضاربت کے طور پر مال دے،پس مال والے نے کہا کہ تہائی پر دیا ہوں اور مضارب نے کہا کہ آدھے پر پر تو مال والے کا اعتبار ہے مگر یہ کہ دوسراآدمی گواہ پیش کرے(ب) حضرت ابن عباس نے مجھے لکھا کہ حضورۖ نے مدعی علیہ پر قسم کھانے کا فیصلہ فرمایا(ج) آپۖ نے فرمایا بینہ اس پر ہے جس نے دعوی کیا اور قسم اس پر ہے جس نے انکار کیا مگر قسامت میں۔

Flag Counter