Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

210 - 457
والحج ]١٢٠٨[(٥٣) ولا یجوز الاستیجار علی الغناء والنوح۔ 

وجہ  (١) پچھلے زمانے میں بیت المال سے معلمین کو وظیفہ ملتا تھا جس کی وجہ سے وہ مفت تعلیم دیتے تھے۔لیکن اس زمانے میں ایسا نہیں ہے۔اب اگر اجرت نہ لے تو معلم اپنی او اولاد کی کفالت کیسے کریںگے؟ اور تعلم دینا چھوڑ دے تو قرآن کی تعلیم چھوٹ جائے گی۔اور دین کی ترقی رک جائے گی اس لئے اب تعلیم قرآن پر اجرت لینے کی گنجائش دی ہے (٢) حدیث میں ہے کہ تعویذ کرنے پر بکری اجرت پر لی اور تعویذ میں سورة فاتحہ پڑھی جس سے معلوم ہوا کہ اجرت لینے کی گنجائش ہے۔لمبی حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن ابی سعید قال انطلق نفر من اصحاب النبی ۖ فی سفرة سافروھا ... فماانا براق لکم حتی تجعلوا لنا جعلا فصالحو ھم علی قطیع من الغنم فانطلق یتفل علیہ ویقرأ الحمد للہ رب العالمین ... قال (رسول اللہ) قد اصبتم اقسموا واضربوا لی معکم سھما فضحک النبی ۖ (الف) (بخاری شریف ، باب ما یعطی فی الرقیة علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب ص ٣٠٤ نمبر ٢٢٧٦ مسلم شریف ، باب جواز اخذ الاجرة علی الرقیة بالقرآن والاذکار ج ثانی ص ٢٢٤ نمبر ٢٢٠١،کتاب السلام ( اس حدیث میں الحمد للہ پڑھنے کے بدلے بکری اجرت پر لی ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے (٣) بخاری شریف میں اسی باب میں یہ اثر نقل کیا ہے۔وقال ابن عباس عن النبی ۖ احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ، وقال الحکم لم اسمع احدا کرہ اجر المعلم ،واعطی الحسن دراھم عشرة (ب) (بخاری شریف، باب ما یعطی فی الرقیة علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب، ص ٣٠٤ ،نمبر ٢٢٧٦دار قطنی،کتاب البیوع ج ثالث ص ٥٥ نمبر ٣٠١٩ سنن للبیھقی ، باب اخذ الاجرة علی تعلیم القرآن والرقیة بہ، ج سادس ،ص٢٠٥،نمبر١١٦٧٦ مصنف ابن ابی شیبة ١٠٠ فی اجر المعلم، ج رابع، ص ٣٤٦،نمبر٢٠٨٣١) اس اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔اور آج کل اسی پر فتوی ہے۔کیونکہ اس اثر میں ہے کہ زیادہ حقدار اجرت کا کتاب اللہ ہے۔اور حکم سے مروی ہے کہ کوئی معلم کی اجرت لینا مکروہ سمجھتا ہو ایسا نہیں سنا۔
]١٢٠٨[(٥٣)اور نہیں جائز ہے اجرت لینا گانے اور نوحہ کرنے پر۔  
وجہ  (١)نوحہ کرنا اور گانا گانا حرام ہے اس لئے ان کی اجرت بھی جائز نہیں ہے (٢)حدیث میں ہے۔عن عبد اللہ عن النبی ۖ قال لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاھلیة (بخاری شریف، باب ما ینھی من الویل ودعوی الجاہلیة عند المصیبة ص ١٧٣ نمبر ١٢٩٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا ممنوع ہے تو اس کی اجرت لینا بھی جائز نہیں (٣)اثر میں ہے۔عن ابی قاسم عن ابراھیم اہ کرہ اجر النواحة والمغنیة (ج) (مصنف عبد الرزاق ، باب الاجر علی تعلیم الغلمان وقسمة الاحوال ج ثامن ص ١١٦ نمبر ١٤٥٤٠) اس اثر میں ہے کہ حضرت ابراہیم نوحہ اور گانا گانے کی اجرت کو مکروہ سمجھتے تھے(٤)ومن الناس من یشتری لھو 

حاشیہ  :  (الف) ابو سعید فرماتے ہیں کہ حضورۖ کے کچھ صحابی سفر میں گئے ... صحابی نے فرمایا تمہارے لئے کچھ جھاڑ پھونک کرنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ ہمارے لئے کچھ اجرت متعین کرو۔تو گاؤں والوں نے صلح کیا بکری کے ریوڑ پر۔پس صحابی مریض پر پھونکتے رہے اور الحمد للہ پڑھتے رہے ... آپۖ نے فرمایا تم نے ٹھیک کیا اور تمہارے ساتھ میرا بھی حصہ لگاؤ اور حضورۖ ہنسے (ب) آپۖ نے فرمایا سب سے زیادہ حقدار جس پر تم اجرت لو وہ کتاب اللہ ہے۔ حضرت حکم نے فرمایا معلم کی اجرت مکروہ سمجھے ایسا کسی  سے نہیں سنا۔اور حضرت حسن نے دس درہم ماہانہ معلم کو اجرت دی(ج حضرت ابراہیم نوحہ کرنے والی اور گانے والی کی اجرت مکروہ سمجھتے تھے۔

Flag Counter