Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

205 - 457
وقالا رحمھما اللہ الاجارة فاسدة]١٢٠٠[ (٤٥) ومن استأجر دارا کل شھر بدرھم فالعقد صحیح فی شھر واحد وفاسد فی بقیة الشھور الا ان یسمی جملة الشھور معلومة 

اس لئے اجارہ درست ہوگا۔اور جو کام کرے گا اس قسم کی اجرت ملے گی۔باقی کیا کام کرے گا اس کا تعین کام شروع کرتے وقت ہو جائے گا۔  اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ دو کام الگ الگ ہوں اور ہر ایک کی اجرت معلوم ہو تو اجارہ درست ہے۔
صاحبین فرماتے ہیں کہ اجارہ کرتے وقت یہ پتہ نہیں ہے کہ کون سا کام اجیر کرے گااس لئے کون سی اجرت لازم ہوگی ،ایک درہم یا دو درہم یہ عقد اجارہ کے وقت طے نہیں ہے اس لئے اجارہ کی اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے اجارہ فاسد ہو گیا۔اس لئے اجارہ درست نہیں ہوا چاہے کام شروع کرتے وقت اس کا علم ہو جائے کہ کون سی اجرت ہوگی ۔ 
اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ عقد اجارہ طے کرتے وقت اجرت کا علم نہ ہو تو اجارہ فاسد ہوگا۔ 
لغت  عطار  :  عطر بیچنے والا۔  حداد  :  لوہاری کا کام کرنے والا۔
]١٢٠٠[(٤٥)کسی نے گھر کرایہ پر لیا ہر ماہ ایک درہم کے بدلے تو عقد صحیح ہے ایک مہینے میں اور فاسد ہوگا باقی مہینوں میں  مگر یہ کہ تمام معلوم مہینے متعن کر دیئے جائیں۔  
تشریح  کسی نے گھر کرایہ پر لیا اور یوں کہا کہ ہر ماہ ایک درہم کے بدلے اجرت دوںگا۔تو ایک ہی مہینے کا اجارہ ہوا اگلے مہینے کا اجارہ نہیں ہوا۔گھر والا اگلے مہینے اجرت پر دینے سے انکار کردے تو کر سکتا ہے ۔اسی طرح کرایہ دار اگلے مہینے اجرت پر لینے سے انکار کردے تو کر سکتا ہے۔ البتہ اگلے مہینہ بھی رہنا شروع کردے اور گھر والا کچھ نہ کہے تو یہ از سر نو اجارہ ہوا جو معروف طریقے پر گویا کہ اشارے اشارے میں بیع تعاطی کے طور پر ہو گیا۔اور اسی طرح جتنے مہینے بغیر انکار کے رہتے رہیںگے ہر ماہ نیا اجارہ ہوتا چلا جائے گا۔ اور جس دن گھر والا یا کرایہ دار اجرت دینے یا لینے سے انکار کردے اسی دن اگلا اجارہ ختم ہو جائے گا۔ ہاں ! تمام مہینے متعین کردے تو جتنے مہینے متعین کرے گا اتنے مہینے کی اجرت ہوگی۔مثلا دو سال طے کیا تو دو سال کا اجارہ ہوگا۔  
وجہ  تمام مہینوں کو طے نہیں کیا تو کتنے مہینے کا اجارہ ہوگا یہ مجہول ہے۔لیکن چونکہ ہر مہینہ ایک درہم کا بول چکا ہے اس لئے اقل درجہ ایک مہینہ کا اجارہ ہو جائے گا (٢)اثر میں اس کا اشارہ ہے ۔عن الثوری فی رجل یکتری من رجل الی مکة ویضمن لہ الکری نفقتہ الی ان یبلغ قال لا الا ان یوقت ایاما معلومة وکیلا معلوما من الطعام یعطیہ ایاہ کل یوم (الف) (مصنف عبد الرزاق ، باب الرجل یکتری علی الشیء المجہول وھل یجوز الکراء او یأخذ مثلہ منہ ؟ ج ثامن ص ٢١٤ نمبر ١٤٩٣٨) اس اثر میں ہے کہ تمام دن متعین کر لئے جائیں اور ان کے تمام کرائے متعین نہ کر لئے جائیں تب تک اجارہ صحیح نہیں ہے (٣)حدیث میں ہے کہ ڈھیر کی مکمل مقدار معلوم نہ ہو تو اس کے بیچنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح تمام مہینے معلوم نہ ہوں تو ان کا اجارہ درست نہیں ہوگا حدیث میں ہے۔ سمعت جابر بن عبد اللہ نھی 

حاشیہ  :  (الف) حضرت ثوری نے فرمایا کوئی آدمی کسی آدمی سے مکہ تک کرایہ کے لئے لے اور مکہ تک پہنچنے تک اجیر کے نفقے کا ضامن ہو تو فرمایا یہ صحیح نہیں ہے یہاں تک کہ دن متعین کرے اور کھانے کا کیل معلوم ہو جو ہر دن دیگا۔

Flag Counter