Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

204 - 457
درھم وان خاطہ غدا فلہ اجرة مثلہ عند ابی حنیفة رحمہ اللہ ولا یتجاوز بہ نصف درھم وقال ابو یوسف و محمد رحمھما اللہ الشرطان جائزان وایھما عمل استحق الاجرة ]١١٩٩[(٤٤)وان قال ان سکنت فی ھذا الدکان عطارا فبدرھم فی الشھر وان سکنتہ حدادا فبدرھمین جاز وای الامرین فعل استحق المسمی فیہ عند ابی حنیفة رحمہ اللہ 

درہم اور اگر سیا کل تو اس کے لئے اجرت مثل ہوگی امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور نہیں تجاوز کرے گی آدھے درہم سے ۔اور کہا صاحبین نے کہ دونوں شرطیں جائز ہیں اور جانسا عمل کرے گا اس اجرت کا مستحق ہوگا ۔
 تشریح  کسی نے اجیر سے کہا کہ آج کپڑا سیو گے تو ایک درہم اجرت ہوگی اور کل سیوگے تو آدھا درہم اجرت ہوگی۔تو امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ آج سیئے گا تو ایک درہم ہوگی اور کل سیئے گا تو آدھا درہم نہیں ہوگی بلکہ بازار میں اس کپڑے کو سینے کی جو اجرت ہوسکتی ہے وہ اجرت ملے گی۔البتہ وہ بھی آدھے درہم سے زیادہ نہ ہو ۔
 وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ آج سیوگے تو ایک درہم یہ جلدی کرنے کے لئے ہے اس لئے اجارہ درست ہو گیا اور آج سیئے گا تو ایک درہم ملے گا۔لیکن اگر کہا کہ کل سیئے گا تو آدھا درہم اجرت ہوگی یہ تعلیق کے لئے ہے اور اجارہ معلق ہو جائے تو بات طے نہیں ہوتی اس لئے اجارہ فاسد ہو گیا ۔اور جب اجارہ فاسد ہو جائے تو قاعدہ یہ ہے کہ بازار میں جو اجرت ہو سکتی ہے وہ ملتی ہے اس لئے بازار کہ اجرت ملے گی۔لیکن کل سینے پر دونوں کے درمیان آدھا درہم طے ہے اس لئے بازار کی اجرت بھی آدھے درہم سے زیادہ نہ ہو۔
صاحبین فرماتے ہیں کہ آج کی شرط لگائے یا کل کی دونوں شرطیں درست ہیںاس لئے دونوں اجارے درست ہیں۔اس لئے جو عمل کرے گا شرط کے مطابق وہ اجرت ملے گی۔یعنی اگر آج سیئے گا تو ایک درہم ملے گا اور کل سیئے گا تو آدھا درہم ملے گا ۔
 اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ آج یا کل دونوں میں سے جس شرط پر بھی بات طے ہو جائے وہ شرط جائز ہے اور اجارہ درست ہے۔اور اس کے مطابق عمل کرنے سے اس کو اجرت ملے گی۔
]١١٩٩[(٤٤)اگر کہا کہ اگر اس دوکان میں عطر بیچنے والے کو ٹھہرائیںگے تو مہینے میں ایک درہم ہوگا اور اگر اس میں لوہار ٹھہرائیںگے تو دودرہم تو جائز ہے۔اور دونوں معاملوں میں سے جو بھی کرے گا اسی کی اجرت کا مستحق ہوگا امام ابو حنیفہ کے نزدیک۔اور صاحبین نے فرمایا یہ اجارہ فاسد ہے۔  
تشریح  مثلا زید نے عمر کو دوکان اجرت پر دی اور یوں کہا اگر اس دوکان میں عطر فروشی کا کام کروائیںگے تو مہینے کا ایک درہم اجرت ہوگی۔اور اگر اس دوکان میں لوہاری کا کام کروائیںگے جو گندہ کام ہے تو مہینے کے دو درہم اجرت ہوگی۔امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں اجارے درست ہیں۔اس لئے اگر عطر کا کام کروایا تو مہینے میں ایک درہم اور لوہاری کا کام کروایا تو مہینے میں دو درہم اجرت ملے گی۔  
وجہ  اس صورت میں اجارہ کو معلق کرنا نہیں ہے بلکہ دو کاموں میں سے ایک کا اختیار دینا ہے ۔اور چونکہ دونوں کی الگ الگ اجرتیں واضح ہیں 

Flag Counter