Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

198 - 457
ولا فی ما تلف من عملہ الا ان یتعدی فیضمن]١١٨٥[(٣٠) والاجارة تفسدھا الشروط کما تفسد البیع ]١١٨٦[(٣١) ومن استأجر عبدا للخدمة فلیس لہ ان یسافر بہ الا ان 

۔اس لئے اجیر خاص پر ضمان لازم نہیں ہوگا (٢) اثر میں ہے۔عن الشعبی قال لیس علی اجیر المشاھرة ضمان (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ٥٤ فی الجیر یضمن ام لا ؟ ج رابع، ص ٣١٥،نمبر٢٠٤٨٧  مصنف عبد الرزاق ، باب ضمان الاجیر الذی یعمل بیدہ ،ج ثامن، ص  ٢١٧ ،نمبر ١٤٩٤٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اجیرخاص پر تعدی کے بغیر ہلاک ہو جائے تو ضمان نہیں ہے۔  
اصول  اجیر خاص کے ہاتھ میں مالک کا مال امانت ہوتا ہے۔
]١١٨٥[(٣٠)اجارہ کو فاسد کر دیتی ہیں شرطیں جیسے وہ فاسد کر دیتی ہیں بیع کو۔  
تشریح  جو شرطیں بیع کو فاسد کرتی ہیں وہ شرطیں اجارہ کو بھی فاسد کرتی ہیں۔مثلا ایسی شرطیں جن میں اجیر کا فائدہ ہو یا مستاجر کا فائدہ ہو تو ان شرطوں سے اجارہ فاسد ہو جائے گا۔  
وجہ  کیونکہ اجارہ بھی بیع کی طرح عقد ہے۔فرق یہ ہے کہ بیع میں عین شی کی بیع ہوتی ہے اور اجارہ میں منافع کی بیع ہوتی ہے۔تو چونکہ دونوں عقد ہیں اس لئے دونوں میں شرط فاسد سے عقد فاسد ہو جائے گا (٢) حدیث میں اس کا اشارہ ہے۔عن ابی مسعود الانصاری ان رسول اللہ ۖ نھی عن ثمن الکلب ومھر البغی وحلوان الکاھن (ب) ٠بخاری شریف ، باب کسب البغی والاماء ص ٣٠٤ نمبر ٢٢٨٢ مسلم شریف ، باب تحریم ثمن الکلب وحلوان الکاھن ومھر البغی ص ١٩ نمبر ١٥٦٧) اس حدیث میں زنا کی اجرت اور کاہن کے پاس جاکر اجرت دینے سے منع فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا اجارہ فاسد ہوگا (٣) دوسری حدیث میں ہے۔ عن ابن عمر قال نھی النبی عن عسب الفحل (ج) (بخاری شریف ، باب عسب الفحل ص ٣٠٥ نمبر ٢٢٨٤ مسلم شریف ، باب تحریم بیع فضل الماء ...وتحریم بیع ضراب الفحل ص ١٨ نمبر ٤٠٠٥١٥٦٥) اس حدیث میں سانڈ کی جفتی کی اجرت سے منع فرمایا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ یہ اجارہ فاسد ہے۔
]١١٨٦[(٣١)کسی نے غلام کو خدمت کے لئے اجرت پر لیا۔پس اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس کو ساتھ لیکرسفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس پر شرط لگائے عقد میں۔  
تشریح  کسی نے غلام کو حضر میں خدمت کے لئے لیا تو اس کو بغیر اس کی مرضی کے سفر میں نہیں لے جا سکتا۔جب تک کہ عقد کرتے وقت شرط نہ لگائے کہ میں اس کو خدمت کے لئے سفر میں لے جاؤںگا۔ہاں ! عقد اجارہ کرتے وقت یہ شرط لگائے کہ غلام کو سفر میں بھی لے جاؤں گا تو لے جا سکتا ہے ورنہ نہیں ۔
 وجہ  سفر میں مشقت ہوتی ہے اس میں خدمت کرنا مشکل کام ہے اس لئے حضر میں اجارہ ہوا ہے تو غلام کی مرضی کے بغیر اس کو سفر میں نہیں لے جا سکتا (٢) حدیث میں ہے۔وقال النبی ۖ المسلمون عند شروطھم (د) (بخاری شریف ، باب اجر السمسرة ص ٣٠٣ نمبر  

حاشیہ  :  (الف) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ ماہانہ اجیر پر ضمان لازم نہیں ہے(ب) حضورۖ نے منع فرمایا کتے کی قیمت سے،زنا کی اجرت سے اور کاہن کے پاس آنے سے (ج) حضورۖ نے روکا سانڈ کی جفتی کی اجرت سے(د) آپۖ نے فرمایا مسلمان شرطوں کا پاسبان ہے۔

Flag Counter