Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

188 - 457
]١١٦٧[(١٢)الا ان یختار صاحب الارض ان یغرم لہ قیمة ذلک مقلوعا و یملکہ ]١١٦٨[(١٣) او یرضی بترکہ علی حالہ فیکون البناء لھذا والارض لھذا۔ 

جس شرط پر زمین کرایہ پر دی گئی تھی اسی شرط پر واپس کرے(٣) دوسری حدیث میں ہے کہ بغیر دلی خوشی کے کسی کا مال لینا جائز نہیں ہے۔عن انس بن مالک ان رسول اللہ ۖ قال لایحل مال امرأ مسلم الا بطیب نفسہ (الف) (دار قطنی ،کتاب البیوع ج ثالث ص ٢٢ نمبر ٢٨٦٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر رضامندی کے کسی کا مال لینا جائز نہیں۔اس لئے بغیر اجیر کی رضامندی کے اس کو گھر یا درخت زمین پر چھوڑدینے کے لئے کہنا جائز نہیں ہے۔
]١١٦٧[(١٢)مگر یہ کہ زمین والا پسند کرے کہ اکھڑے ہوئے کی قیمت دے اور گھر یا درخت کا مالک ہو جائے۔  
تشریح  زمین والااس بات پر راضی ہو جائے کہ ٹوٹے ہوئے گھر اور اکھڑے ہوئے درخت کی جو قیمت ہو سکتی ہے وہ اجیر کو دیدے اور گھر اور درخت کا مالک ہو جائے تو ایسا کرسکتا ہے۔  
وجہ  کرایہ پر زمین لینے والے پر گھر توڑ کر زمین خالی کرنا ضروری تھا۔اسی طرح درخت کاٹ کر زمین خالی کرنا ضروری تھا اس لئے یوں سمجھو کہ گھر ٹوٹ چکا اور درخت کٹ چکے۔اس لئے ٹوٹے ہوئے گھر کی قیمت اور کٹے ہوئے درخت کی قیمت جو ہو سکتی ہے وہ قیمت زمین والا دے گا اور سالم گھر اور سالم درخت کا مالک بن جائے گا۔ یہ الگ سے بیع اور شراء ہے جس میں کھیت والا اور کرایہ پر لینے والے دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ اس قسم کے صلح کی گنجائش حدیث میں ہے ۔عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ المسلمون علی شروطھم والصلح جائز بین المسلمین (ب)(دار قطنی ،کتاب البیوع ج ثالث ص ٢٣ نمبر ٢٨٦٧) اس حدیث میں ہے کہ مسلمان کے درمیان صلح کرنا جائز ہے اس لئے ٹوٹے ہوئے گھر اور کٹے ہوئے درخت پر آپس میں صلح کی قیمت ہو جائے تو جائز ہے۔  
نوٹ  یہ پہلے کرایہ کے اندر بیع نہیں ہے کہ بیع کے اندر بیع ہو کر ناجائز ہو جائے۔کیونکہ کرایہ کی بات تو کئی سال پہلے ہو چکی تھی اور ٹوٹے ہوئے گھر کی بیع ابھی ہو رہی ہے اس لئے بیع و شرط نہیں ہوئی کہ ناجائز ہو جائے ۔
 لغت  یغرم  :  تاوان دے۔  مقلوعا  :  قلع سے مشتق ہے اکھیڑنا۔
]١١٦٨[(١٣) یا راضی ہو جائے چھوڑنے پر اپنی حالت پر ۔پس عمارت کرایہ دار کے لئے اور زمین زمین والے کے لئے ہوگی۔  
تشریح  کرایہ پر لینے کی مدت ختم ہو گئی ہے۔اس لئے کرایہ دار کو گھر توڑنا چاہئے اور درخت کاٹنا چاہئے لیکن دونوں راضی ہو جائے کہ مزید زمانے کے لئے گھر اور درخت زمین پر چھوڑ دو تو ایسا کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں زمین زمین والے کی رہے گی اور مکان یا درخت مکان یا درخت والے کے ہوںگے۔  
وجہ  زمین والے کی چیز ہے وہ راضی خوشی سے ایساکرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔بلکہ حدیث کی روسے ایک قسم کا تعاون ہوگا اور بھائی کی مدد کرنے کا             

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا کسی مسلمان آدمی کا مال حلال نہیں ہے مگر اس کی خوش دلی سے(ب)آپۖ نے فرمایا مسلمان اپنی شرط کے مطابق ہوتے ہیں یعنی شرط کے مطابق رہنا چاہئے اور صلح مسلمانوں کے درمیان جائز ہے۔

Flag Counter