Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

187 - 457
]١١٦٦[ (١١) فاذا انقضت مدة الاجارة لزمہ ان یقلع البناء والغرس ویسلمھا فارغة۔ 

کی جائے یا سالوں کے لئے پھل دار درخت لگائے جائیں(٢) سالوں کے لئے زمین کرایہ پر لینے کا ثبوت حدیث اور اثر میں ہے۔وقال ابن عباس ان امثل ما انتم صانعون ان تستأجروا الارض البیضاء من السنة الی السنة (الف) (بخاری شریف ، باب کراء الارض بالذھب والفضة ص ٣١٥ نمبر ٢٣٤٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ کئی سال کے لئے بھی خالی زمین کرایہ پر لے سکتا ہے (٣) یہود کو کئی سال کے لئے خیبر کی زمین دی گئی تھی۔بعد میں حضرت عمر کے زمانے میں ان کو بے دخل کیا گیا۔عن ابن عمر ان عمر بن الخطاب اجلی الیہود والنصاری من الارض الحجاز ... واراد اخراج الیھود منھا فسألت الیھود رسول اللہ ۖ لیقرھم بھا ان یکفوا عملھا ولھم نصف الثمر فقال لھم رسول اللہ ۖ نقرکم بھا علی ذلک ما شئنا فقروا بھا حتی اجلاھم عمر الی تیماء واریحاء (ب) (بخاری شریف ، باب اذا قال رب الارض اقرک ما اقرک اللہ ولم یذکر اجلا معلوما فھما علی تراضیھما ص ٣١٤ نمبر ٢٣٣٨مسلم شریف ، باب المساقات والمعاملة بجزء من الثمر والزرع ص ١٤ نمبر ٣٩٦٧١٥٥١) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خیبر کے یہود کو کھیتی اور کھجور کے باغ کئی سال کے لئے آدھی کھیتی کے بدلے کرایہ پر دیا تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ خالی زمین بھی عمارت بنانے اور درخت لگانے کے لئے کئی سالوں کے لئے دی جا سکتی ہے۔  
لغت  الساحة  : خالی زمین ۔  یغرس  :  درخت لگانا۔
]١١٦٦[(١١)پس جب اجارہ کی مدت ختم ہو جائے تو اس کو لازم ہوگا کہ عمارت اور درخت اکھاڑ لے اور زمین والے کو خالی زمین سپرد کرے۔  تشریح  مثلا بیس سال کے لئے خالی زمین اجرت پر لی تھی اور اس میں عمارت بنائی تھی یا درخت لگائے تھے تو بیس سال پورے ہونے کے بعد عمارت ختم کردے اور درخت کاٹ لے اور جیسی خالی زمین کرایہ کے وقت لی تھی ویسی ہی بالکل خالی کرکے زمین والے کو حوالے کرے ۔
 وجہ  (١) اگر زمین پر عمارت یا درخت لگے رہنے کی شرط لگادے تو اس میں اجیر کا نقصان ہوگا کہ بغیر کسی قیمت کے اس کو عمارت اور درخت چھوڑنا پڑ رہا ہے۔اس لئے یہ بھی درست نہیں ۔اور ایسا بھی ہوگا کہ اس عمارت اور درخت کی ضرورت نہ ہو تو اس کو اکھاڑنے اور ڈھانے میں کھیت والے کی رقم خرچ ہوگی جس سے کھیت والے کو نقصان ہوگا۔اس لئے قانون یہی ہوگا کہ جیسی خالی زمین کرایہ کے وقت لی تھی ویسی ہی خالی کرکے زمین واپس کرے (٢) حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔عن ابی ھریرة ان رسول اللہ ۖ قال المسلمون علی شروطھم والصلح جائز بین المسلمین (ج) (دار قطنی ، کتاب البیوع ج ثالث ص ٢٣ نمبر ٢٨٦٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ 

حاشیہ  :  (الف) ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے مثل جو تم کرتے ہو یہ کہ خالی زمین کو اجرت پر لے ایک سال سے دوسرے سال تک (ب) عمر بن خطاب نے یہود کو اور نصاری کو ارض حجاز سے جلا وطن کیا... حضورۖ نے یہود کو خیبرسے نکالنے کا ارادہ کیا تو یہود نے حضورۖ سے درخواست کی کہ ان کو خیبر میں ٹھہرنے دیں۔تاکہ ان کی کاشتکاری کریں۔اور اہل مدینہ کے لئے آدھا پھل ہو تو حضورۖ نے ان سے کہا ہم تم کو رکھتے ہیں اس پر جتنا چاہیں۔تو وہ لوگ وہاں ٹھہرے رہیں۔یہاں تک کہ حضرت عمر نے ان کو جلا وطن کیا مقام تیماء اور اریحاء تک(ج)آپۖ نے فرمایا مسلمان اپنی شرط کے مطابق ہوتے ہیں یعنی شرط کے مطابق رہنا چاہئے اور صلح مسلمانوں کے درمیان جائز ہے۔

Flag Counter