Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

180 - 457
الزوج فی ذلک او تشھد بولادتھا قابلة]١١٥٣[ (٥٤) ومن اقر بنسب من غیر الوالدین والولد مثل الاخ والعم لم یقبل اقرارہ بالنسب]١١٥٤[ (٥٥) فان کان لہ وارث 

الولد ،ج ثانی، ص ٩٤، نمبر ٣٥١١) اس حدیث میں دوسروں پر بلا وجہ نسب ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔اس لئے شوہر تصدیق نہ کرے اس وقت تک لڑکے کے بارے میں عورت کا اقرار قبول نہیں ہے۔البتہ دایہ گواہی دے کہ اس عورت کو بچہ ہوا ہے ۔اور اسی بچے کے بارے میں اقرار کرتی ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے تو شوہر اس کی تصدیق نہ بھی کرے تب بھی بیٹے کا نسب عورت سے ثابت ہوگا۔اور پھر چونکہ عورت شوہر کا فراش ہے اس لئے شوہر سے بھی اس بچے کا نسب ثابت ہو جائے گا ۔
 وجہ  کیونکہ جہاں مرد کے لئے دیکھنا حرام ہے وہاں دایہ کی گواہی قابل قبول ہے۔اور اسی گواہی سے بچے کا نسب ثابت ہو جائے گا۔ حدیث میں ہے  عن حذیفة ان النبی ۖ اجاز شہادة القابلة (الف) (دار قطنی ، کتاب فی الاقضیة والاحکام ،ج رابع، ص ١٤٩ ،نمبر ٤٥١٠ سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی عددھن ج عاشر ،ص ٢٥٤،نمبر٢٠٥٤٢،کتاب الشہادات ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دایہ کی گواہی بچے کی پیدائش کے بارے میں قابل قبول ہے۔
]١١٥٣[(٥٤)کسی نے اقرار کیانسب کا والدین اور اولاد کے علاوہ کا مثلا بھائی کا یا چچا کا تو اس کے نسب کا اقرار قبول نہیں کیا جائے۔  
تشریح  مثلا زید نے اقرار کیا کہ عمر میرا بھائی ہے یا چچا ہے تو یہ اقرار قبول نہیں کیا جائے گا۔  
وجہ  بھائی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے تو مقر نے اپنے باپ سے نسب ثابت کر دیا۔اور پہلے گزر چکا ہے کہ دوسرے پر نسب کا الزام نہیں رکھ سکتا اور دوسرے سے نسب ثابت نہیں کر سکتا۔ اپنے پر کرے تو ٹھیک ہے۔اس لئے بھائی کا اقرار کرنا باطل ہے۔اسی طرح یہ کہے کہ یہ میرا چچا ہے تو اس مطلب یہ ہوا کہ میرے دادا کا بیٹا ہے تو دادا سے نسب ثابت کیا تو دوسرے سے نسب ثابت کیا جو صحیح نہیں ہے۔اس لئے چچا ہونے کا بھی اقرار نہیں کر سکتا۔  
اصول  نسب کا ایسا اقرار نہیں کر سکتا جس سے دوسرے سے نسب ثابت ہونا لازم ہو۔جس کو تحمیل النسب علی الغیر کہتے ہیں۔
]١١٥٤[(٥٥) پس اگر مقر کے لئے معلوم وارث ہو قریبی یا دور کے تو وہ میراث کے زیادہ حقدار ہیں مقرلہ سے۔پس اگر نہ ہو اس کا وارث تو مقر لہ مقر کی میراث کا مستحق ہوگا ۔ 
تشریح  مثلا زید نے عمر کے لئے اقرار کیا کہ وہ میرا بھائی ہے یا چچا ہے تو تحمیل النسب علی الغیر کی وجہ سے اس کا نسب زید سے ثابت نہ ہو سکا۔ اب اگر مقر زید کا کوئی وارث ہے چاہے وہ قریبی وارث ہو یا دور کا وارث ہو تو وہ زید کی میراث کا حقدار ہوگا۔  
وجہ  کیونکہ وہ ثابت شدہ وارث ہیں۔اور بھائی اور چچا جن کا اقرار کیا تھا ان کا نسب ہی زید سے ثابت نہیں ہوا اس لئے وہ زید کے وارث نہیں ہوںگے۔ ہاں ! کوئی وارث نہ ہو ں نہ قریب کے نہ دور کے تو اب جن کے لئے بھائی یا چچا ہونے کا اقرار کیا ہے وہ وارث ہوںگے۔کیونکہ زید 

حاشیہ  (پچھلے صفحہ سے آگے)تعالی اس سے پردہ کر لیں گے۔اور اس کو اولین اور آخرین کے سامنے شرمندہ کریںگے(الف) حضورۖ نے دایہ کی گواہی کی اجازت دی۔یعنی دایہ کی گواہی ولادت کے بارے میں قابل قبول ہے۔

Flag Counter