Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

177 - 457
]١١٤٧[ (٤٨) ولو اقر لاجنبیة ثم تزوجھا لم یبطل اقرارہ لھا]١١٤٨[ (٤٩) ومن طلق امرأتہ فی مرض موتہ ثلثا ثم اقر لھا بدین ومات فلھا الاقل من الدین ومن میراثھا منہ ]١١٤٩[(٥٠) ومن اقر بغلام یولد مثلہ لمثلہ ولیس لہ نسب معروف انہ ابنہ وصدقہ 

]١١٤٧[(٤٨) اور اگر اجنبی عورت کے لئے اقرار کیا پھر اس سے شادی کی تو عورت کے لئے اقرار باطل نہیں ہوگا۔   
تشریح  پہلے عورت اجنبیہ تھی اس حالت میں اس کے لئے مثلا سو درہم کا اقرار کیا پھر بعد میں اس عورت سے شادی کی اور وہ بیوی بن کر وارث بن گئی پھر بھی اس عورت کے لئے جو اقرار کیا تھا وہ باطل نہیں ہوگا۔  
وجہ  جس وقت عورت کے لئے اقرار کیا تھا اس وقت وہ اجنبی تھی وہ بیوی بن کر وارث نہیں بنی تھی اس لئے اس کے لئے اقرار کرنا درست تھا ۔وارث تو شادی کے بعد بنی ہے۔اس لئے اس کے لئے جو اقرار کیا تھا وہ باطل نہیں ہوگا۔اور اوپر کے مسئلہ میں لڑکے کے لئے اقرار اس لئے باطل ہوا تھا کہ وہ بچپنے ہی سے وارث شمار کیا گیا چاہے بیٹا ہونے کا اقرار بعد میں کیا ہو۔اس لئے دین کا اقرار بیٹا ہونے کی حالت میں ہوا اس لئے اقرار باطل ہوا۔  
اصول  جہاں دوسرے کو نقصان دینے کا شبہ نہ ہو وہاں اقرار درست ہے۔
]١١٤٨[(٤٩)کسی نے اپنی بیوی کو مرض الموت میں تین طلاقیں دیں،ابھی وہ عدت میں تھی کہ اس کے لئے اقرار کیا پھر انتقال کر گیا تو عورت کے لئے دین اور شوہر سے میراث میں سے جو کم ہے وہ ملے گا۔  
تشریح  مثلا زید نے اپنے مرض الموت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،ابھی وہ عدت ہی میں تھی کہ اس کے لئے اقرار کیا کہ اس کے مجھ پر پانچ سو درہم قرض ہیں۔ پھر زید کا انتقال ہوگیا تو دیکھا جائے گا کہ عورت کو شوہر کی وراثت میں کم ملتا ہے یا اقرار میں کم ملتا ہے۔جس مین کم ملے گا وہی عورت کو ملے گا۔مثلا وراثت مین چارسو درہم ملتے تھے تو وراثت ملے گی کیونکہ اقرار میں پانچ سو درہم ملنے والے تھے جو زیادہ ہیں۔   
وجہ  اس میں یہ شبہ ہے کہ شوہر بیوی کے لئے بھاری رقم دین کا اقرار کرنا چاہتا تھا لیکن وارث ہونے کی وجہ سے نہیں کر سک رہاتھا ۔اس لئے بیوی کو طلاق دے کر پہلے اجنبیہ بنایا پھر اس کے لئے بھاری رقم کا اقرر کیا۔اس شبہ کی وجہ سے وراثت اور اقرار میں سے جو کم ہو وہ رقم بیوی کو ملے گی۔ حدیث میں ہے۔عن ابن عباس عن النبی ۖ قال الاضرار فی الوصیة من الکبائر (الف) (دار قطنی ، کتاب الوصایا ج رابع ص ٨٦ نمبر ٤٢٤٩) اس حدیث میں ہے وصیت کرکے کسی کو نقصان دینا گناہ کبیرہ ہے۔اس لئے کم دیکر باقی ورثہ کو نقصان سے بچایا جائے گا۔
]١١٤٩[(٥٠)کسی نے ایک لڑکے کے بارے میں کہ اس جیسا لڑکا اس جیسے آدمی سے پیدا ہو سکتا ہو اور لڑکے کا نسب معلوم نہ ہو کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور لڑکے نے اس کی تصدیق کردی تو لڑکے کا نسب اس آدمی سے ثابت ہو گا اگر چہ آدمی بیمارہو ۔اور میراث میں ورثہ کے شریک ہوگا۔ 

حاشیہ  :  (الف) وصیت کرکے نقصان دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے۔

Flag Counter