Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

174 - 457
]١١٤٣[(٤٤) واذا اقر الرجل فی مرض موتہ بدیون وعلیہ دیون فی صحتہ و دیون 

وصیت کرتا ہوں۔ اور زید بھی ورثہ میں تھا اس لئے زید نے مورث کے مرنے کے بعد اقرار کیا کہ اس باندی یا بکری کے بچے عمر کے لئے ہیں۔ اس لئے یہ اقرار صحیح ہے باطل نہیں ہے۔  
اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر متفرع ہے کہ اگر حمل عقد حمل کے وقت ہو اور عقد کا اجراء بھی حمل ہی کے وقت ہو تو نہ عقد جائز نہ اجراء جائز۔جیسے حمل کی بیع حمل کے وقت کرے تو اس کے احکام کا اجراء بھی حمل کے وقت ہی ہو رہا ہے اس لئے حمل کی بیع جائز نہیں۔کیوںکہ حمل بکری کا اور باندی کا جز ہے۔اور کل کے بغیر جز کی بیع درست نہیں۔نیز حمل پیٹ میں چھپا ہوا ہے۔اس لئے مبیع مجہول ہوگی اس لئے بھی بیع جائز نہیں۔لیکن وصیت اور وراثت میں عقد تو حمل کے وقت ہوتا ہے لیکن اس کے احکام کا اجراء پیٹ سے باہر نکلنے کے بعد ہوتا ہے۔مثلا وراثت حمل کے لئے حمل کے وقت رکھی جاتی ہے لیکن ملتی اس وقت ہے جب حمل پیٹ سے باہر آجائے۔ اور نہ اس وقت جہالت ہوگی اور نہ حمل ماں کا جز ہوگا۔ حدیث میں ہے  عن ابی ھریرة عن النبی ۖ قال اذا استہل المولود ورث (الف) (ابو داؤد شریف، باب فی المولود یستہل ثم یموت ص ٤٩ نمبر ٢٩٢٠ ابن ماجہ شریف ، باب ماجاء فی الصلوة علی الطفل ص ٢١٥ نمبر ١٥٠٨) اس حدیث میں ہے کہ حمل زندہ باہر آئے تو وارث ہوگا۔معلوم ہوا کہ حمل پیٹ سے باہر آنے کے بعد وراثت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔ اسی طرح وصیت منعقد ہوتی ہے حمل کی حالت میں۔لیکن اس کے احکام جاری ہوںگے پیٹ سے باہر ہونے کے بعد۔اور اس وقت حمل نہ ماں کا جز رہے گا اور نہ اس میں کوئی جہالت رہے گی۔اس لئے حمل کو کسی اور کے لئے اقرار کرنا جائز ہوگا ۔
 اصول  حمل کے وہ احکام جو حمل کے پیٹ سے باہر ہونے کے بعد جاری ہوتے ہوں ان کا حمل کے وقت منعقد کرنا جائز ہے۔اور وہ احکام جو حمل ہی کے وقت جاری ہوتے ہوں ان کا حمل کے وقت منعقد کرنا جائز نہیں۔
]١١٤٣[(٤٤)اگر کسی آدمی نے اپنے مرض موت میں دیون کا اقرار کیا حالانکہ اس پر دین ہیں صحت کے زمانے کا اور کچھ دیون اس کو لازم ہیں اس کے مرض الموت میں اسباب معلومہ کے تحت تو صحت کے دین اور وہ دین جن کے اسباب معلوم ہیں مقدم ہوںگے۔پس جبکہ اداکر دیئے جائیں اور باقی رہے مال میں سے کچھ تو صرف کیا جائے اس دین میں جن کا اقرار کیا مرض میں۔اور اگر نہیں ہے اس پر ایسے دین جو لازم ہوں اس کی صحت کے زمانے میں تو جائز ہے اس کا اقرار۔  
تشریح  ایک آدمی مرض الموت میں مبتلا ہے۔اسی مرض میں اس کی موت ہوئی۔صحت کے زمانے میں کچھ دین لئے وہ اس کے ذمے تھے ۔پھر مرض الموت کے زمانے میں ایسے اسباب کے ذریعہ دین آئے جو لوگوں کو معلوم ہیں ۔مثلا خریدو فروخت کی جس کی وجہ سے اس پر دین آیا یا مہر مثل میں شادی کی اس کی وجہ سے اس پر دین آیا۔اور دین کے یہ اسباب سب کو معلوم ہیں۔ان دونوں دینوں کی موجودگی میں مثلا عمر کے لئے اپنے اوپر دین کا اقرار کرتا ہے جس کا سبب معلوم نہیں تو اقرار درست ہوگا۔لیکن اس دین کی ادائیگی مال بچنے کے بعد کی جائے گی۔پہلے وہ دین ادا کئے جائیںگے جو صحت کے زمانے میں لئے گئے ہیں۔یا مرض الموت کے زمانے میں لئے گئے ہیں اور ان کے اسباب سب کو معلوم 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا اگر بچہ روئے تو وارث ہوگا۔

Flag Counter