Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

156 - 457
الحاکم حال بینہ وبین غرماء ہ الا ان یقیموا البینة انہ قد حصل لہ مال]١٠٩٨[ (٤٧) ولا یحجر علی الفاسق اذا کان مصلحا لمالہ والفسق الاصلی والطاریٔ سواء ]١٠٩٩[ (٤٨) ومن افلس وعندہ متاع لرجل بعینہ ابتاعہ منہ فصاحب المتاع اسوة للغرماء فیہ۔

وجہ  اصل قاعدہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک کسی کو مفلس قرار دے تو وہ ہمیشہ مفلس نہیں رہتا کیونکہ مال آنے جانے والی چیز ہے۔ آج کسی کے پاس مال نہیں ہے تو کل ہو جائے گا اس لئے کسی کو حاکم مفلس قرار دے تو ہمیشہ مفلس باقی نہیں رہتا۔ اس لئے قرضخواہ کو اس کے پیچھے لگنے کی اجازت ہوگی۔اور صاحبین کے نزدیک یہ ہے کہ کسی کو مفلس قرار دے تو وہ ہمیشہ مفلس شمار ہوتا ہے۔اور جب وہ مفلس ہے اور اس کے پاس مال نہیں ہے تو قرض خواہوں کو تنگ کرنے کے لئے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لئے حاکم مفلس اور قرض خواہ کے درمیان حائل ہوگا۔البتہ اگر شہادت کے ذریعہ ثابت کر دے کے اس کے پاس مال ہے تو پھر قرض خواہ کو لینے کی اجازت ہوگی۔
]١٠٩٨[(٤٧)اور فاسق پر حجر نہیں کیا جائے گا اگر وہ مال کی اصلاح کرنے والا ہو اور فاسق اصلی اور فاسق طاری برابر ہیں۔  
تشریح  فاسق دینی امور میں فسق کرتا ہے لیکن مال کو صحیح ڈھنگ سے خرچ کرتا ہے اور صحیح ڈھنگ سے کماتا ہے تو اس پر حجر نہیں کیا جائے گا۔  
وجہ  کیونکہ حجر کیا جاتا ہے مال کی اصلاح کے لئے اور مال کی اصلاح کر رہا ہے اس لئے حجر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے (٢) حجاج بن یوسف فاسق تھا لیکن فسق کی وجہ سے اس پر حجر نہیں کیا گیا۔اس لئے فاسق پر فسق کی وجہ سے حجر نہیں کیا جائے گااگر مال صحیح ڈھنگ پر خرچ کرتا ہو۔
لغت    الطاری  :  بعد میں طاری ہو۔
]١٠٩٩[(٤٨) کسی کو مفلس قرار دیا اور اس کے پاس کسی آدمی کا بعینہ سامان موجود ہو جس کو اس نے اس سے خریدا تھا تو سامان والا اس میں دوسرے قرضخواہوں کے برابر ہے۔  
تشریح  ایک آدمی کو مفلس قرار دیا۔اس نے اس سے پہلے کسی آدمی سے مثلا بکری خریدی تھی ۔اور بکری والے کو قیمت نہیں دی تھی اور وہ بکری مفلس کے پاس بعینہ موجود ہے۔تو جس طرح اور قرض خواہوں کو اس کے حصے کے مطابق مال ہونے پر قرض ملے گا اسی طرح بکری والے کو مال ہونے پر حصے کے مطابق بکری کی قیمت ملے گی۔بکری والا اپنی پوری بکری لیجا نہیں سکتا۔ بلکہ بکری بیچ کر سب کو قرض ادا کیا جائے گا۔  
وجہ  بکری کی بیع ہونے کے بعد یہ بکری مفلس کی ہو گئی۔بکری والے کی نہیں رہی۔البتہ مفلس پر اس کی قیمت واجب ہے جو مفلس پر قرض ہوگی۔ اس لئے جس طرح اور قرض خواہ مال آنے پر اپنے اپنے حصے کے مطابق لیںگے اسی طرح یہ بکری والا بھی اپنا حصہ لے گا۔ مثلا بکری کی قیمت ڈھائی سو پونڈ تھی اور مفلس  پر دو ہزار قرض تھا۔زید کا ایک ہزار،عمر کا پانچ سواور خالد کا ڈھائی سو قرض تھا اور بکری کی قیمت ڈھائی سو پونڈ تھی ۔اور مفلس کے پاس ایک ہزار پونڈ آئے تو ہر ایک قرض خواہ کو آدھا آدھا قرض ملے گا ۔یعنی زید کو پانچ سو، عمر کو ڈھائی سو،خالد کو سواسو اور بکری والے کو بھی ڈھائی سوکا آدھا یعنی سواسو پونڈ ملیں گے۔ اور قرض خواہوں میں شریک ہو نگے (٢) حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔عن ابی ھریرة عن النبی ۖ ... فی روایتہ وایما امرأ ھلک وعندہ متاع امرأ بعینہ اقتضی منہ شیئا او لم یقتض فھو 

Flag Counter