Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

157 - 457
اسوة الغرماء (الف) سنن للبیقی ، باب المشتری یموت مفلسا بالثمن، ج ساد س ،ص ٧٩نمبر١١٢٥٦ ) اس روایت میں ہے کہ بائع اور قرض خواہوں کے ساتھ قرض میں شریک ہوگا۔   
اصول  مفلس کے قبضے کے بعد چیز مفلس کی ہوگئی۔مال والے کی نہیں رہی،وہ قرض خواہوں کی طرح قیمت کا حقدار ہوگا ۔
 فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ بکری والے کی بکری بعینہ موجود ہے اس لئے وہ بکری کا زیادہ حقدار ہے اس لئے وہ اپنی پوری بکری مفلس کے پاس لے جائے گا۔ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔سمع ابا ھریرة یقول قال رسول اللہۖ او قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول من ادرک مالہ بعینہ عند رجل او انسان قد افلس فھو احق بہ من غیرہ (ب) (بخاری شریف ، باب اذا وجد مالہ عند مفلس فی البیع والقرض والودیعة فھو احق بہ ص ٣٢٣ نمبر ٢٤٠٢  مسلم شریف ، باب من ادرک ما باعہ عند المشتری وقد افلس فلہ الرجوع فیہ ص ١٧ نمبر ١٥٥٩) اس حدیث میں ہے کہ اگر مفلس کے پاس اپنا مال بیعنہ پائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔اس لئے وہ لیگا۔  
لغت  اسوة  :  برابر کا حصہ دار۔  الغرماء  :  جمع ہے غریم کی  قرض دینے والے، قرضخواہ۔

حاشیہ  :  (الف) انہیں کی ایک روایت میں ہے کوئی آدمی ہلاک ہو جائے اور اس کے پاس کسی آدمی کا بعینہ سامان موجود ہے اس سے کچھ قیمت وصول کی ہو یا نہ کی ہو تو وہ قرضخواہوں کے برابر ہے (ب) آپۖ نے فرمایا کسی نے کسی آدمی کے پاس بعینہ اپنا مال پایا جو مفلس ہو چکا ہو تو وہ اس کے علاوہ سے زیادہ حقدار ہے۔

Flag Counter