Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

150 - 457
فی دینہ ]١٠٨٣[(٣٢) وان کان لہ دراہم ودینہ دراھم  قضاہ القاضی بغیر امرہ ]١٠٨٤[ (٣٣) وان کان دینہ دراھم ولہ دنانیراو علی ضد ذلک باعھا القاضی فی دینہ 

ۖ لی الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ قال سفیان یعنی عرضہ ان یقول ظلمنی فی حقی و عقوبتہ یسجن (الف) (سنن للبیھقی ، باب حبس من علیہ الدین اذا لم یظھر مالہ وما علی الغنی فی المطل، ج سادس ،ص ٨٥،نمبر١١٢٧٩  بخاری شریف ، باب لصاحب الحق مقال ص ٣٢٣ نمبر ٢٤٠١ کتاب الاستقراض)اس حدیث میں ہے کہ کوئی ٹال مٹول کرے تو اس کی سزا یہ ہے اس کی عزت حلال ہے ۔یعنی کہہ سکتا ہے کہ فلاں نے مجھ پر ظلم کیا اور وہ سزا کا مستحق ہے۔یعنی اس کو قید میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ٹال مٹول کرنے والے کو قید میں ڈالا جاسکتا ہے۔
]١٠٨٣[(٣٢)اگر مفلس کے پاس دراہم ہوں اور اس کا دین بھی دراہم ہوں تو مفلس کے بغیر حکم کے اس کو ادا کرے گا۔  
تشریح  مفلس پر کسی کا قرض دراہم ہوں اور اس کے پاس بھی دراہم ہوں تو قاضی مفلس سے اجازت لئے بغیر قرض والے کا قرض ادا کریگا۔  وجہ  دائن کا جو حق ہے وہی مفلس کے پاس موجود ہے اس لئے دائن مفلس کی رضامندی کے بغیر بھی لے سکتا ہے تو قاضی کو تو زیادہ اختیار ہوتا ہے اس لئے وہ بدرجہ اولی اس کے حکم کے بغیر قرض کو ادا کرسکتا ہے (٢) حدیث میں اس کا اشارہ موجود ہے۔انہ سمع ابا ھریرة یقول قال رسول اللہ او قال سمعت رسول اللہ من ادرک مالہ بعینہ عند رجل او انسان قد افلس فھو احق بہ من غیرہ (ب) (بخاری شریف ، باب اذا وجد مالہ عند مفلس فی المبیع والقرض والودیعة فھو احق بہ، ص ٣٢٣، نمبر ٢٤٠٢،کتاب الاستقراض ) اس حدیث میں ہے کہ مفلس کے پاس اپنا مال پائے تو مال والا زیادہ حقدار ہے اور درہم قرض دینے والے کا درہم موجود ہے اس لئے وہ لے لیگا۔کیونکہ درہم اور دنا نیر متعین نہیں ہوتے۔اس لئے قاضی بھی بغیر مفلس کی رضامندی کے دائن کو دے دیگا۔ 
]١٠٨٤[(٣٣) اور اگر اس کا دین دراہم ہوں اور مفلس کے پاس دینار ہوں یا اس کے خلاف تو قاضی اس کے دین میں بیچے گا۔
  تشریح  مفلس کے پاس دینار ہیں اور اس کے اوپر دین دراہم ہیں یا اس کا الٹا ہے یعنی مفلس کے پاس دراہم ہیں اور اس کے اوپر دین دینار ہیں تو قاضی اس کو بیچے گا اور اس کا دین ادا کرے گا۔  
وجہ  دینار ہوں یا دراہم دونوں ثمن ہیں تو گویا کہ دونوں ایک ہی جنس ہیں اس لئے دائن کا جس جنس میں حق ہے گویا کہ وہی جنس مقروض کے پاس پائی اس لئے وہ لے سکتا ہے۔ اور قاضی کو اختیار زیادہ ہوتا ہے اس لئے بدرجہ اولی دینار کو درہم کے قرض میں یا درہم کو دینار کے قرض میں بیچ سکتا ہے۔مدیون کے مال بیچنے کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن کعب بن مالک ... فدعاہ النبی ۖ فلم یبرح من ان باع مالہ وقسمہ بین غرمائہ قال فقام معاذ ولا مال لہ (ج) (سنن للبیھقی ، باب الحجر علی المفلس و بیع مالہ فی دیونہ ،ج سادس،  

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا مال پانے والے کے ٹال مٹول کرنے کی وجہ سے حلال ہے اس کی عزت اور اس کو سزا دینا۔ حضرت سفیان نے فرمایا کہ عزت حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کہے مجھ پر میرے حق کے بارے میں ظلم کیا اور سزا کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قید کیا جائے(ب) آپۖ نے فرمایا کسی نے کسی آدمی کے پاس بعینہ مال پایا اور مفلس ہوگیا ہے تو وہ دوسروں سے زیادہ حقدار ہے(ج) آپۖ نے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ حضرت معاذ کے مال کو بیچا اور اس کو (باقی اگلے صفحہ پر) 

Flag Counter