Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

148 - 457
والحبل فان لم یوجد ذلک فحتی یتم لھا سبعة عشر سنة]١٠٧٨[ (٢٧) وقال ابو یوسف و محمد رحمھما اللہ اذا اتم للغلام والجاریة خمسة عشر سنة فقد بلغا ]١٠٧٩[(٢٨) اذا راھق الغلام والجاریة فاشکل امرھما فی البلوغ فقالا قد بلغنا فالقول قولھما واحکامھما احکام البالغین۔

گی۔اس کی دلیل یہ ہے کہ عورت جلدی بالغ ہوتی ہے اس لئے جب مرد کے لئے اٹھارہ سال متعین کیا تو عورت کے لئے ایک سال کم کردیا اس لئے سترہ سال میں بالغ سمجھی جائے گی۔
]١٠٧٨[(٢٧) اور امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا جب پورے ہو جائیں لڑکے کے لئے اور لڑکی کے لئے پندرہ سال تو سمجھو دونوں بالغ ہو گئے۔  
وجہ  اس حدیث میں ہے کہ پندرہ سال کے لڑکے کو بالغ اور بڑا سمجھا گیا۔حدثنی ابن عمر ان رسول اللہ عرضہ یوم احد وھو ابن اربع عشرة سنة فلم یجزنی ثم عرضنی یوم الخندق وانا ابن خمس عشرة فاجازنی قال نافع فقدمت علی عمر بن عبد العزیز وھو خلیفة فحدثتہ ھذا الحدیث فقال ان ھذا لحد بین الصغیر والکبیر وکتب الی عمالہ ان یفرضوا لمن بلغ خمس عشرة (الف) (بخاری شریف ، باب بلوغ الصبیان وشہادتھم ص ٣٦٦ نمبر ٢٦٦٤ مسلم شریف ، باب بیان سن البلوغ ص ١٣١ نمبر ١٨٦٨ ابو داؤد شریف نمبر ٤٤٠٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی پندرہ سال کی عمر تک پہنچ جائے تو اس کو بڑا اور بالغ سمجھا جاتا ہے۔اور اس حدیث میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔اس لئے عورت کی بھی کوئی علامت بلوغ نہ پائی جائیں تو پندرہ سال میں اس کو بالغ سمجھا جائے گا۔
]١٠٧٩[[(٢٨)]١٠٧٩[(٢٨)اگر لڑکا اور لڑکی قریب البلوغ  ہوں اور بالغ ہونے کے بارے میں ان دونوں کا معاملہ مشکل ہو ،پس وہ دونوں کہے کہ ہم بالغ ہو گئے ہیں تو دونوں کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔اور دونوں کے احکام بالغین کے احکام ہونگے۔  
تشریح  لڑکا یا لڑکی قریب البلوغ ہوں اور یہ نہ معلوم ہوتا ہو کہ بالغ ہو چکے ہیں یا نا بالغ ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم بالغ ہو چکے ہیں تو ان کا باتوں کا اعتبار کرکے بالغ شمار ہوںگے۔اور ان پر بالغ کے احکام جاری ہوںگے۔  
وجہ  جہاں تکذیب کی علامت نہ ہو تو اس کی ذات کے بارے میں آدمی کی شہادت قابل قبول ہے۔جیسے عدت گزرنے اور حیض ختم ہونے کے بارے میں عورت کی بات کا اعتبار ہے اور اسی پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح یہاں بھی ان کی بات مان کر بالغ شمار کئے جائیںگے۔

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ان کو حضورکے سامنے جنگ احد کے دن پیش کیا گیا۔وہ اس وقت چودہ ساکے تھے،فرماتے ہیں کہ مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں ملی ۔پھر مجھے جنگ خندق کے دن پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا تو مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت مل گئی۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں عمر بن عبد العزیز کے پاس وہ اس وقت خلیفہ تھے میں یہ حدیث بیان کی فرمایا یہ عمر چھوٹے اور بڑے کے درمیان حد ہے۔اور اپنے عمال کو لکھا کہ جو پندرہ سال کے ہو جائیں ان کے لئے عطینہ متعین کردے۔

Flag Counter