Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

143 - 457
حرا ]١٠٦٦[(١٥) وتصرفہ فی مالہ جائز وان کان مبذرا مفسدا یتلف مالہ فی ما لا غرض لہ فیہ ولا مصلحة مثل ان یتلفہ فی البحر او بحرقة فی النار]١٠٦٧[(١٦) الا انہ قال اذا بلغ الغلام غیر رشید لم یسلم الیہ مالہ حتی یبلغ خمسا وعشرین سنة وان تصرف فیہ قبل ذلک نفذ تصرفہ فاذا بلغ خمسا و عشرین سنة سلم الیہ مالہ وان لم یؤنس منہ  الرشد]١٠٦٨[(١٧) وقال ابو یوسف و محمد رحمھما اللہ یحجر علی السفیہ ویمنع

باوجود صحابی پر حجر نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ سفیہ پر حجر جائز نہیں ہے(٢) اثر میں ہے۔عن ابراھیم قال لا یحجر علی حر (مصنف ابن ابی شیبة ١٢٨ من کرہ الحجر علی الحر ومن رخص فیہ، ج رابع، ص٣٦٧،نمبر٢١٠٦٢) 
]١٠٦٦[(١٥)بے وقوف کا تصرف اس کے مال میں جائز ہے اگرچہ وہ فضول خرچ اور مفسد ہو۔اپنے مال کو ضائع کرتا ہو ایسی چیز میں جس میں کوئی غرض نہیں اور نہ کوئی مصلحت ہو۔مثلا اس کو سمندر میں ضائع کرتا ہو یا اس کو آگ میں جلاتا ہو ۔
 تشریح  امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ بے وقوف چاہے فضول خرچ ہو، مفسد ہو اور ایسی جگہ مال صئع کرتا ہو جہاں نہ کوئی غرض ہو اور نہ مصلحت ہو مثلا سمندر میں مال پھینک دیتا ہے یا آگ میں جلا دیتا ہے پھر بھی اس پر حجر نہیں کیا جائے گا۔اس کی خریدو فروخت نافذ ہوگی۔  
وجہ  کیونکہ وہ عاقل و بالغ اور آزاد ہے۔
]١٠٦٧[(١٦)مگر یہ فرمایا کہ کوئی لڑکا بے وقوفی کی حالت میں بالغ ہو تو اس کا مال اس کو سپرد نہیں کیا جائے گا۔یہاں تک کہ پچیس سال کا ہو جائے۔اور اگر اس سے پہلے اس نے تصرف کیا تو اس کا تصرف نافذ ہو جائے گا۔ پس جب پچیس سال پورے ہو جائیں تو اس کو اس کا مال سپرد کردیا جائے گا اگرچہ اس میں سمجھداری محسوس نہ ہو ۔
 تشریح  امام صاحب فرماتے ہیں کہ پچیس سال میں آدمی دادا بن جاتا ہے کیونکہ بارہ سال میں بالغ ہوگا اور فرض کرو کہ بچہ ہو اور وہ بچہ بارہ سال میںبالغ ہو کر شادی کی اور اس کو بچہ ہوا تو آدمی پچیس سال میں دادا بن جائے گا۔اس لئے اگر کوئی بے وقوفی کی حالت میں بالغ ہوا تو اس پر حجر تو نہ کیا جائے لیکن اس کو پچیس سال تک مال سپرد نہ کیا جائے۔تاکہ وہ مال کو غلط خرچ نہ کرے۔اور پچیس سال کے بعد چاہے سمجھداری کے آثار نہ نظر آتے ہوں پھر بھی مال اس کو حوالے کردیا جائے۔  
لغت  لم یونس  :  محسوس نہیں کیا گیا ہو۔ 
]١٠٦٨[(١٧)اور فرمایا امام ابو یوسف اور امام محمد نے حجر کیا جائے گا بے وقوف پر اور روکا جائے گا اس کے مال میں تصرف سے۔پس اگر بیچا تو اس کی بیع اس کے مال میں نافذ ہوگی اور اس میں مصلحت ہوتو حاکم اس کی اجازت دے۔  

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے)میں کمزوری ہے۔پس حضورۖ نے اس کو بلایا اور اس کو بیع سے روکا ۔انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میں صبر نہیں کر سکتا ہوں۔آپۖ نے فرمایا اگر بیع کو چھوڑ نہیں سکتے تو 'ھاء ھاء لا خلابة' کہہ لیا کرو۔

Flag Counter