Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

140 - 457
عقودھما ولا اقرارھما ولا یقع طلاقھما ولا اعتاقھما ]١٠٥٩[(٨) فان اتلفا شیئا لزمھما ضمانہ]١٠٦٠[ (٩) واما العبد فاقوالہ نافذة فی حق نفسہ غیر نافذة فی حق مولاہ۔ 

لئے ان کا اعتبار نہیں۔ البتہ عقد کرنا مثلا خریدو فروخت کرنے میں فائدہ اور نقصان دونوں ہو سکتے ہیں اس لئے ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔اقرار کرنے مین سراسر نقصان ہے اس لئے اس کا بھی اعتبار نہیں ہے۔ اور وہ طلاق دے یا آزاد کرے تو طلاق واقع نہیں ہو گی ا ور نہ غلام آزاد ہوگا۔  
وجہ  ان میں بھی نقصان ہے۔طلاق میں بیوی جائے گی اور آزاد کرنے میں غلام جائے گا اس لئے ان کا بھی اعتبار نہیں ہے۔ حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔ عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ کل طلاق جائز الا طلاق المعتوہ المغلوب علی عقلہ (الف) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی طلاق المعتوہ، ص ٢٢٣ نمبر ١١٩١ بخاری شریف ، باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ ص ٧٩٣ نمبر ٥٢٦٩) اس حدیث میں ہے کہ معتوہ جن کی عقل مغلوب ہو اس کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور بچہ بھی مغلوب العقل ہے اس لئے اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔عن علی لا یجوز علی الغلام طلاق حتی یحتلم (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب طلاق الصبی، ج سابع، ص ٨٥، نمبر ١٢٣١٦)(٢) اس کے علاوہ اوپر حدیث گزر چکی ہے کہ تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔بچے ،مجنون اور سونے والے سے۔اس لئے ان لوگوں کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
]١٠٥٩[(٨)پس اگر ان دونوں میں سے کوئی چیز ضائع کی تو ضمان لازم ہوگا۔  
تشریح  مجنون اور بچے نے اپنی حرکتوں سے کسی کی کوئی چیز ضائع کردی تو اس کا ضمان ان دونوں پر لازم ہوگا۔اور ان کے ولی ان کا ضمان ادا کریںگے ۔
 وجہ  ان لوگوں کے قول و قرار کا اعتبار نہیں ہے لیکن افعال کا اعتبار تو ہے(٢) دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ضمان ادا کیا جائے گا۔ورنہ دوسروں کے حقوق ضائع ہونگے۔  
اصول  دوسروں کا نقصان کوئی بھی کرے ضمان ادا کرنا ہوگا۔
]١٠٦٠[(٩) بہرحال غلام تو اس کے اقوال نافذ ہیں اس کی ذات کے حق میں اور نہیں نافذ ہیں اس کے مولی کے حق میں۔  
تشریح  بالغ غلام عقلمند ہے لیکن مولی کے نقصان اور اس کے حق کی وجہ سے اس کے اقوال نافذ نہیں نہ اس کا خریدو فروخت نافذ ہیں۔لیکن اس کی ذات کے حق میں اس کا اقرار وغیرہ نافذ ہے۔مثلا وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو یہ اس کا ذاتی نقصان ہے اس لئے طلاق دے سکتا ہے  وجہ  حدیث میں اس کا ثبوت ہے کہ غلام کا قول اس کی ذات کے حق میں نافذ ہے۔عن ابن عباس قال اتی النبی رجل فقال یا رسول اللہ ان سیدی زوجنی امتہ وھو یرید ان یفرق بینی و بینھا قال فصعد رسول اللہ ۖ المنبر فقال یا ایھا 

حاشیہ  :  (الف)آپۖ نے فرمایا ہر طلاق جائز ہے مگر معتوہ مغلوب العقل کی طلاق (ب) حضرت علی سے روایت ہے کہ فرمایا نہیں جائز ہے لڑکے کی طلاق جب تک کہ احتلام نہ ہو جائے۔

Flag Counter