Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

128 - 457
]١٠٢٩[ (٣١) وجنایة الراھن علی الرھن مضمونة]١٠٣٠[ (٣٢) وجنایة المرتھن 

جائے۔حدیث میں ان کا ثبوت ہے۔عن ابن عباس قال کان العباس ابن عبد المطلب اذا دفع مالا مضاربة اشترط علی صاحبہ ان لا یسلک بہ بحرا ولا ینزل بہ وادیا ولا یشتری بہ ذا کبد رطبة فان فعلہ فھو ضامن فرفع شرطہ الی رسول اللہ ۖ فاجازہ (الف) (دار قطنی ، کتاب البیوع ج ثالث ص ٦٤ نمبر ٣٠٦٢) اس حدیث میں حضرت عباس نے مضارب سے یہ شرط لگائی کہ اس مال کو لیکر سمندر میں سفر نہیں کریںگے نہ وادی میں مقیم ہوںگے اور نہ جاندار چیز کو خریدیںگے۔اور حضورۖ نے ان کو جائز قرار دیا۔یہ شرطیں لگانا یا ان کی رعایت کرنا جائز ہیںجن سے کسی فریق کو نقصان سے بچایا جائے۔
مسائل رہن انہیں اصول پر متفرع ہیں۔اس کے علاوہ ان دو حدیثوں سے بھی مسائل متفرع ہیں۔عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ ۖ قال لا ضرر ولا ضرار من ضار ضرہ اللہ ومن شاق شق اللہ علیہ (ب) (دار قطنی ، کتاب البیوع ج ثالث ص ٦٤ نمبر ٣٠٦٠) کہ کسی کو نقصان نہیں دینا چاہئے۔اور دوسری حدیث ہے ۔عن عمرو بن یثربی قال شہدت رسول اللہ ۖ فی حجة الوداع بمنی فسمعتہ یقول لا یحل لامرء من مال اخیہ شیء الا ما طابت بہ نفسہ (ج)(دار قطنی ، کتاب البیوع ج ثالث ص ٢٢ نمبر ٢٨٦٠) اس حدیث میں ہے کہ بغیر خوشی کے کسی کا مال کھانا حلال نہیں ہے۔اسی لئے مسائل رہن میں اس کی رعایت رکھی کہ بغیر راہن اور مرتہن کی رضامندی کے شیء مرہون میں تصرف کرنا یا اس کی شرطوں میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
]١٠٢٩[(٣١)راہن کی جنایت شیء مرہون پر سبب ضمان ہے۔  
تشریح  مثلا سو پونڈ کی شیء مرہون تھی ۔راہن نے اس کو خراب کردیا اب وہ اسی پونڈ کی رہ گئی تو راہن نے بیس پونڈ کا نقصان کیا یہ بیس پونڈ مرتہن کو دے تاکہ وہ دین ادا ہونے تک اس کو رہن پر رکھے ۔
 وجہ  اگر چہ شیء مرہون راہن کی ہی ہے لیکن ابھی اس کے ساتھ مرتہن کا حق متعلق ہے اس لئے رہن میں سے راہن نے جتنا نقصان کیا ہے وہ رہن کے لئے دیناہوگا ۔
 لغت   مضمونة  :  سبب ضمان ہے۔
]١٠٣٠[(٣٢) اور مرتہن کی جنایت رہن پر ساقط کرتی ہے دین سے اس کی مقدار۔  
تشریح  مثلا سو پونڈ مرتہن کا دین تھا اور سو پونڈی کی چیز رہن پر  رکھی ہوئی تھی۔مرتہن نے اس میں سے بیس پونڈ کا نقصان کیا اور اب شیء مرہون اسی پونڈ کی رہ گئی تو یہ بیس پونڈ دین سے ساقط ہو جائیںگے اور راہن پر مرتہن کا دین اب اسی پونڈ ہی رہے۔  

حاشیہ  :  (الف) حضرت عباس جب کسی کو مضاربت کا مال دیتے تو مضارب پر شرط لگاتے کہ اس کو لیکر سمندر میں سفر نہیں کرے گا۔نہ اس کو لیکر کسی وادی میں ٹھہرے گا۔اور نہ اس مال سے کوئی جانور خریدے گا۔اور اگر ایسا کیا تو مضارب اس کا ضاامن ہوگا۔ان شرطوں کو حضور کے پاس لے گئے۔پس آپۖ نے ان کی اجازت دیدی(ب) آپۖ نے فرمایا نہ نقصان دو اور نہ نقصان اٹھاؤ۔جو نقصان دیتا ہے اللہ اس کو نقصان دیتا ہے۔اور جو مشقت میں ڈالتا ہے اللہ اس کو مشقت میں ڈالتا ہے (ج) آپ فرمایا کرتے تھے کسی انسان کے لئے اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ بھی حلال نہیں ہے مگر اس کی راضی خوشی سے۔

Flag Counter