Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

123 - 457
علم انہ کان زیوفا فلا شیء لہ عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی وقال ابو یوسف و محمد رحمھما اللہ تعالی یرد مثل الزیوف ویرجع مثل الجیاد]١٠١٧[ (١٩) ومن رھن عبدین 

اس کے لئے کچھ نہیں ہے۔اور صاحبین نے فرمایا کہ کھوٹے کے مثل واپس کرے اور اچھے کے مثل وصول کرے۔  
تشریح  سو درہم کسی پر قرض تھے،قرض دینے والے نے مقروض سے سو درہم لئے اور ان کو خرچ کر دیا بعد میں علم ہوا کہ میرے دراہم عمدہ تھے اور یہ دراہم جو میں نے خرچ کئے گھٹیا تھے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک گویا کہ اپنا پورا حق وصول کر لیا۔اب مقروض سے مزید کچھ نہیں لے سکتا۔  وجہ  سو درہم قرض دیئے تھے اور سو درہم مقروض سے لے لئے۔عدد اور وزن کے اعتبار سے برابر ہو گیا ۔اور جنس ایک ہو تو عمدہ اور گھٹیا کا اعتبار نہیں ہے۔اس لئے یوں سمجھا جائے گا کہ قرض دینے والے نے اپنا پورا حق وصول کر لیا۔اور چونکہ درہم خرچ کر چکا ہے اس لئے اس کو واپس بھی نہیں کر سکتا ۔
 اصول  یہاں بھی اصول وہی ہے کہ ایک جنس ہو تو عمدہ اور گھٹیا کا اعتبار نہیں۔اس کے لئے حدیث پہلے گزر چکی ہے ٠بخاری شریف نمبر ٢٢٠١)واللہ یا رسول اللہ انا لنأخذ الصاع من ھذا بالصاعین والصاعین بالثلاث فقال رسول اللہ ۖ لا تفعل بع الجمع بالدراہم ثم ابتع بالدراہم جنیبا (بخاری شریف، باب اذا اراد بیع تمر بتمر خیر منہ ص ٢٩٣ نمبر ٢٢٠١)  
فائدہ  صاحبین فرماتے ہیں کہ دائن نے جیسا گھٹیا مقروض سے لیا تھا ایسا گھٹیا درہم مقروض کو دے پھر اپنے عمدہ درہم مقروض سے واپس لے۔  
وجہ  جس مالیت کے درہم دائن نے مقروض کو دیئے تھے اس مالیت کے درہم مقروض سے نہیں ملے تھے بلکہ گھٹیا ملے تھے اس لئے اپنے عمدہ درہم وصول کرنے کے لئے یہی کیا جا سکتا ہے کہ مقروض کے گھٹیا درہم جیسے واپس کرے اور اپنے جیسے عمدہ درہم مقروض سے وصول کرے(٢)صاحبین کے نزدیک قرض وغیرہ میں صرف،وزن اور عدد کے اعتبار سے برابر کر دینا کافی نہیں ہے۔بلکہ مالیت اور قیمت کے اعتبار سے برابر کرنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ تو دائن کو نقصان ہوگا۔ اور حدیث میں ہے۔ لا ضرر ولا ضرار (دار قطنی نمبر ٣٠٦٠) اس لئے اس کے وصول کرنے کے لئے یہی صورت ہے کہ کہیں سے گھٹیا دراہم لاکر مقروض کو دے اور اپنے اچھے دراہم وصول کرے۔  
اصول  وزن مین برابری کے ساتھ مالیت کی برابری بھی قرض میں ضروری ہے۔  
لغت  الزیوف  :  کھوٹے درہم۔  الجیاد  :  اچھے۔
]١٠١٧[(١٩)کسی نے دو غلام ایک ہزار کے بدلے میں رہن رکھے پھر ان میں سے ایک کا حصہ ادا کیا تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس کو قبضہ کرے یہاں تک کہ باقی دین ادا کرے۔  
تشریح  دو غلام ایک ہزار پونڈ کے بدلے رہن پر رکھے تھے۔ اور مثلا پانچ سو پونڈ ادا کئے اور چاہتا ہے کہ ایک غلام رہن سے واپس لے لوں تو وہ اس غلام کو رہن سے واپس نہیں لے سکتاجب تک کہ پورے ایک ہزار ادا نہ کر دے۔ جب پورے ایک ہزار ادا کرے گا تو دونوں گلام واپس لے گا  وجہ  یہاں دونوں غلام کا مجموعہ ہزار کے بدلے رہن ہے تاکہ وثیقہ اور اعتماد رہے ۔ایسا نہیں ہے کہ پانچ سو کے بدلے ایک غلام رہن پر ہو اور دوسرے پانچ سو کے بدلے دوسرا غلام رہن پر ہو ۔اس لئے جب پورے ہزار ادا کرے گاتو دونوں غلاموں کو واپس لے گا۔ پانچ سو ادا 

Flag Counter