Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

121 - 457
]١٠١١[(١٣) فان ھلک فی مجلس العقد تم الصرف والسلم وصار المرتھن مستوفیا لحقہ حکما]١٠١٢[(١٤) واذا اتفقا علی وضع الرھن علی یدی عدل جاز ولیس 

]١٠١١[(١٣) پس اگر شیء مرہون ہلاک ہو جائے مجلس عقد میں تو بیع صرف اور بیع سلم پورے ہو گئے اور مرتہن حکما اپنے حق کو وصول کرنے والا ہو گیا۔  
تشریح   بیع صرف کی اور بائع نے مبیع دیدی اور ثمن کے بدلے مشتری نے کوئی چیز بائع کے پاس رہن رکھی ۔مجلس عقد ہی میں رہن کی چیز بائع کے ہاتھ سے ہلاک ہوگئی تو گویا کہ بائع نے ثمن وصول کر لیا۔ اس لئے بیع صرف مکمل ہو جائے گی۔اسی طرح بیع سلم میں رب السلم (مشتری) نے بائع کو ثمن دیا اور بائع نے اس کے بدلے کوئی چیز رب السلم (مشتری) کے پاس رہن رکھی۔بعد میں شیء مرہون مشتری کے ہاتھ سے ہلاک ہوگئی تو گویا کہ مشتری نے مبیع وصول کر لی اور بیع سلم پوری ہو گئی۔مشتری کا یہ وصول کرنا حقیقة تو نہیں حکما ہے۔ 
وجہ  اوپر گزر گیا کہ مرتہن کے ہاتھ میں شیء مرہون کا ہلاک ہونا اپنے قرض کو وصول کرنے کے مترادف ہے۔ 
لغت  مستوفیا لحقہ  :  اپنے حق کو وصول کرنے والا ہوگا۔
]١٠١٢[(١٤) اگر راہن اور مرتہن متفق ہو جائیں رہن کے رکھنے پر کسی عادل کے ہاتھ میں تو جائز ہے۔اور نہیں جائز ہے مرتہن کے لئے اور نہ راہن کے لئے کہ عادل کے ہاتھ سے لے۔  
تشریح  راہن اور مرتہن اس بات پر متفق ہو گئے کہ شیء مرہون کسی تیسرے عادل کے ہاتھ میں رکھ دے تو یہ جائز ہے۔  
وجہ  کیونکہ یہ دونوں کا حق ہے اس لئے دونوں اپنے حقوق میں تصرف کر سکتے ہیں۔ اس لئے کسی عادل  کے ہاتھ شیء مرہون رکھ سکتے ہیں۔ اس صورت میں وہ عادل راہن کی جانب سے محافظ ہوگا اس کے عین مال کا۔ اور مرتہن کی جانب سے محافظ ہوگا اس کی مالیت کا(٢) اثر میں اس کا ثبوت ہے۔ عن اشعث قال کان الحکم والشعبی یختلفان فی الرھن یوضع علی یدی عدل،قال الحکم لیس برھن وقال الشعبی ھو رھن (الف) (مصنف عبد الرزاق،باب الرھن اذا وضع علی یدی عدل یکون قبضا وکیف ان ھلک ج ثامن ص٢٤١ نمبر ١٥٠٤٩) اس اثر میں ہے کہ شیء مرہون کسی عادل کے ہاتھ میں رکھے تو حضرت شعبی نے فرمایا وہ رہن ہی ہوگا۔اس سے پتہ چلا کہ تیسرے کے ہاتھ میں شیء مرہون رکھنا جائز ہے۔عادل کے ہاتھ میں رکھنے کے بعدمرتہن کی اجازت کے بغیر واپس نہیں لے سکتا ہے۔کیونکہ وہ مرتہن کے حق کی وجہ سے عادل کے ہاتھ میں ہے۔اور مرتہن اس لئے نہیں لے سکتا ہے کہ راہن کو مرتہن پر اعتماد نہیں ہے۔ اسی لئے تیسرے کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے۔ اس لئے مرتہن بھی عادل کے ہاتھ سے نہیں لے سکتا۔ ہاں راہن اس کی اجازت دے تو مرتہن عادل کے ہاتھ سے لے سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن عمرو بن یثربی قال شھدت رسول اللہ ۖ فی حجة الوداع بمنی فسمعتہ یقول لا یحل لامرء من مال اخیہ شیء الا ما طابت بہ نفسہ (ب) (دار قطنی ، کتاب البیوع ج ثالث ص ٢٢ نمبر ٢٨٦٠) اس حدیث 

حاشیہ  :  (الف) حضرت حکم اور شعبی اس رہن کے بارے میں اختلاف فرماتے تھے جو کسی عادل کے ہاتھ میں رکھا گیا ہو۔حضرت حکم نے فرمایا وہ رہن نہیں ہے۔اور حضرت شعبی نے فرماتے تھے وہ رہن ہے(ب) میں نے حضور کو فرماتے ہوئے سنا کہ بھائی کے مال میں سے کچھ بھی حلال نہیں ہے مگر اس کی راضی خوشی سے۔

Flag Counter