Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

117 - 457
ضمانہ]١٠٠٢[ (٤) ولا یصح الرھن الا بدین مضمون ]١٠٠٣[(٥) وھو مضمون بالاقل من قیمتہ ومن الدین فاذا ھلک الرھن فی ید المرتھن وقیمتہ والدین سواء صار المرتھن مستوفیا لدینہ حکما۔

،کتاب البیوع ،ج ثالث ،ص ٢٩ ،نمبر ٢٨٩٦ سنن للبیھقی ، باب الرھن غیر مضمون، ج سادس ،ص ٦٦،نمبر١١٢١٩) اس حدیث میں ہے کہ رہن رکھنے کی وجہ سے راہن کا حق ختم نہیں ہوگا۔رہن رکھنے والے کو اس کا فائدہ بھی ملے گا۔اور اگر شیء مرہون میں کوئی نقصان ہوا تو راہن ہی کا گیا۔جس سے معلوم ہوا کہ ہلاک ہوجائے تو مرتہن پر اس کا ضمان نہیں ہے۔
]١٠٠٢[(٤)نہیں صحیح ہے رہن مگر دین مضمون کی وجہ سے۔  
تشریح  وہ دین جو انسان پر ادا کرنا واجب ہو اس کی وجہ سے رہن رکھے تو صحیح ہے۔اور جو دین ادا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ تبرع کے طور پر اپنے اوپر لازم کیا ہے اس دین کے بدلے رہن رکھنا صحیح نہیں۔ مثلا مکاتب اپنے اوپر مال کتابت واجب کرتا ہے لیکن اس کا ادا کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔جب عاجزی کا اظہار کرے اور مال کتابت ساقط کرکے دو بارہ غلام بننا چاہے تو بن سکتا ہے۔اس لئے مال کتابت کی وجہ سے مکاتب کوئی چیز رہن رکھے تو رہن رکھنا صحیح نہیں ہے۔ اس لئے مصنف  نے فرمایا کہ دین واجب کی وجہ سے رہن رکھنا صحیح ہے۔  
وجہ  رہن تو وثیقہ اور اعتماد کی چیز ہے۔جس کی وجہ سے قرض دینے والے کو یقین ہوتا ہے کہ میرا قرض ضرور واپس ملے گا۔ اور اگر قرض واپس نہیں دیا تو شیء مرہون کو بیچ کر اپنا قرض وصول کروں گا۔لیکن جب قرض ہی نہیں دیا ہے بلکہ راہن نے تبرع کے طور پر اپنے اوپر قرض لازم کیا ہے تو وثیقہ کیوں دے۔اور رہن رکھنا کیوں صحیح ہو۔
]١٠٠٣[(٥) شیء مرہون مضمون ہوگی اس کی قیمت اور دین سے کم میں۔ پس جبکہ ہلاک ہو جائے شیء مرہون مرتہن کے ہاتھ میں اور اس کی قیمت اور قرض برابر ہیں تو حکما مرتہن اپنے قرض کو وصول کرنے والا ہو گیا۔  
تشریح   شیء مرہون کا ضمان مرتہن پر لازم ہے لیکن اتنا ہی ضمان لازم ہوگا جتنا اس کا دین ہے اور اس سے زیادہ اس کے ہاتھ میں امانت ہوگی۔ مثلا ایک سو پونڈ مرتہن پر قرض تھا اور ڈیڑھ سو پونڈ کی چیز رہن پر رکھ دی تو شیء مرہون کے ہلاک ہونے پر ایک سو پونڈ کا ضمان مرتہن پر لازم ہوگا اور اس کا اتنا پونڈ ختم ہو جائے گا۔اور باقی پچاس پونڈ جو قرض سے زیادہ تھے وہ مرتہن کے ہاتھ میں امانت کے طور پر تھے۔اور امانت کا قاعدہ یہ ہے کہ بغیر زیادتی کے ہلاک ہو جائے تو صاحب مال کو واپس دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ صاحب مال کا مال ہلاک ہوا۔ اس اصول پر مسئلہ کی تشریح یہ ہے کہ مثلا ایک سو پونڈ مرتہن کا راہن پر قرض تھا۔ اور راہن نے ایک سو پونڈ کی چیز رہن پر رکھ دی۔ بعد میں وہ چیز مرتہن کے یہاں ہلاک ہو گئی تو مرتہن کے سو پونڈ گئے اور گویا کہ مرتہن نے اپنے سو پونڈ وصول کر لئے۔
  وجہ  مرتہن اپنے قرض کے مطابق شیء مرہون کا ضامن تھا،اور شیء مرہون ہلاک ہوئی جو اس کے قرض کے برابر تھی تو گویا کہ اس نے اپنا قرض راہن سے وصول کر لیا۔اب راہن سے کچھ وصول نہیں کر سکے گا۔

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے )فائدہ بھی ملے گا اور اس پر شیء مرہون کا خرچ بھی لازم ہوگا۔

Flag Counter