Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

111 - 457
]٩٨٩[(١٨) فاذا بیعت بجنسھا متفاضلا جاز البیع ]٩٩٠[(١٩) وان اشتری بھا سلعة ثم کسدت فترک الناس المعاملة بھا قبل القبض بطل البیع عند ابی حنیفة وقال ابو 

]٩٨٩[(١٨) پس اگر اس کی جنس کے ساتھ بیچی جائے کمی بیشی کرکے تو جائز ہے۔  
تشریح  مثلا چھ سکے بیچ رہا ہے ،جن میں کھوٹ غالب ہے۔ان چھ سکوں میں عمدہ دو سکوں کے برابر چاندی ہے اور چار سکوں کے برابر کھوٹ ہے۔ پس ان چھ سکوں کو عمدہ تین سکوں کے بدلے بیچے تو جائز ہے۔  
وجہ  چھ سکوں میں دو سکوں کے برابر چاندی ہے وہ عمدہ دو سکوں کے بدلے ہو گئے اور برابر ہو گئے اور باقی چار کھوٹ والے سکے ایک عمدہ سکے کے بدلے ہو گئے۔ اس طرح خالص چاندی خالص چاندی کے برابر اور مزید چاندی کھوٹ کے بدلے ہو گئی اور بیع جائز ہو گئی۔ حدیث مثلا بمثل کی رو سے کوشش کی جائے گی کہ چاندی چاندی کے برابر ہوکمی زیادتی نہ ہو۔ اور کھوٹ کے بدلے مزید چاندی ہو جائے تاکہ بیع جائز ہو جائے۔اس قسم کے مسئلے مسئلہ نمبر ٨ اور مسئلہ نمبر ١٤ میں گزر گئے۔  
نوٹ  یہ مسئلے ان تین اصولوں سے مستنبط ہیں (١) سونا سونے کے برابر ہو، چاندی چاندی کے برابر ہو(٢) اثمان ہوں تو مجلس میں قبضہ ہو (٣) اور چاندی اور سونا مشترک ہو تو اس میں کوشش کی جائے کہ خلاف جنس کے بدلے ہو کر بیع جائز ہو جائے۔
]٩٩٠[(١٩)اگر کھوٹے درہم کے بدلے سامان خریدا پھر اس کا رواج نہ رہا پس لوگوں نے مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے معاملہ چھوڑ دیا تو بیع باطل ہو جائے گی امام ابو حنیفہ کے نزدیک۔ اور فرمایا امام ابو یوسف نے مشتری پر سکے کی قیمت لازم ہے بیع کے دن کی۔اور فرمایا امام محمد نے مشتری پر سکے کی قیمت لازم ہے آخری دن کی جب لوگ اس سکے کا معاملہ کرتے تھے۔  
تشریح  کھوٹے سکے کا قاعدہ یہ ہے کہ جب تک لوگوں میں اس کا رواج ہو اس وقت تک وہ سکے کے درجے میں ہے ،اور جس دن رواج ختم ہوا اس دن سے وہ سامان کے درجے میں ہے۔ اب مثلا دس کھوٹے سکے کے بدلے کوئی چیز خریدی ۔ابھی مبیع پر قبضہ نہیں کیا تھا کہ لوگوں میں ان سکوں کا رواج ختم ہو گیا تو امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ بیع باطل ہو گئی۔  
وجہ  وہ فرماتے ہیں کہ یہ سکے کھوٹے تھے اس لئے لوگوں کے تعامل سے سکے تھے۔اور جب لوگوں نے تعامل چھوڑ دیا تو وہ سامان بن گئے۔اور ان کی ثمنیت ختم ہو گئی۔اس لئے مبیع بغیر ثمن کے باقی رہی ۔اور بیع بغیر ثمن کے ہو تو بیع فاسد ہوتی ہے۔اس لئے یہ بیع فاسد ہو جائے گی۔ اور چونکہ مبیع پر مشتری کا قبضہ نہیں ہوا تھا اس لئے مبیع بائع کے پاس ہی رہے گی اور مشتری کو کچھ نہیں دینا ہوگا۔  
اصول  بیع بغیر ثمن کے ہو تو بیع فاسد ہو جاتی ہے۔
امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ بیع کرتے وقت سکوں کی ثمنیت تھی یہ تو بعد میں ان کی ثمنیت ختم ہوئی ہے۔اس لئے ان سکوں کی قیمت دی جائے گی۔وہ فرماتے ہیں کہ بیع کرتے وقت ان سکوں کی قیمت درہم سے کیا تھی وہ دی جائے گی۔ کیونکہ بائع اور مشتری کے ذہن میں اسی وقت کی قیمت ملحوظ ہے۔اسی وقت کی قیمت ملحوظ رکھ کر بائع مبیع بیچنے پر راضی ہوا ہے۔ اس لئے بیچنے کے وقت ان سکوں کی جو قیمت تھی وہی مشتری پر لازم ہوگی۔  

Flag Counter