Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

108 - 457
حتی افترقا بطل العقد فی الحلیة وان کان یتخلص بغیر ضرر جاز البیع فی السیف وبطل فی الحلیة]٩٨١[ (١٠)ومن باع اناء فضة ثم افترقا وقد قبض بعض ثمنہ بطل العقد فیما لم یقبض وصح فیما قبض وکان الاناء مشترکا بینھما]٩٨٢[ (١١) وان استحق بعض الاناء کان المشتری بالخیار ان شاء اخذ الباقی بحصتہ من الثمن وان شاء ردہ 

ہو تو تلوار کی بیع ہو جائے گی۔ کیونکہ تلوار کی قیمت پر مجلس میں قبضہ کرنا ضروری نہیں ہے ۔اور زیور کی بیع نہیں ہوگی۔کیونکہ اس کی قیمت پر مجلس میں قبضہ کرنا ضروری تھا ورنہ ربوا ہوگا۔ ربوا ہونے کی دلیل اوپر حدیث گزر چکی ہے۔  
نوٹ  اگر زیور تلوار سے نقصان دیئے بغیر الگ نہ ہو سکتا ہو تو زیور کی بیع نہیں ہوگی اور اس کی وجہ سے تلوار کی بیع بھی نہیں ہوگی۔  
لغت  الحلیة  :  زیور،خوبصورتی کی کوئی چیز۔
]٩٨١[(١٠) کسی نے چاندی کا برتن بیچا پھر دونوں جدا ہوگئے حالانکہ بعض ثمن پر قبضہ کیا تو عقد باطل ہو جائے گا جس میں قبضہ نہیں کیا تھا اور صحیح ہوگا جتنے پر قبضہ کیا تھا اور برتن دونوںکے درمیان مشترک ہوگا۔  
تشریح  مثلا سو درہم کا برتن تھا ۔پچاس درہم مجلس میں دیئے اور پچاس درہم نہیں دیئے۔تو جتنے دیئے اس کی بیع ہوگی اور جتنے نہیں دیئے اس کی بیع باطل ہو گی۔  
وجہ  کیونکہ دونوں جانب چاندی ہیں اس لئے دونوں پر مجلس میں قبضہ کرنا ضروری تھا ۔اور یہاں آدھے پر مجلس میں قبضہ ہوا اس لئے آدھے کی بیع ہوگی اور آدھے کی بیع نہیں ہوگی۔ اس صورت میں مبیع برتن ہے اس لئے آدھا برتن الگ تو نہیں ہو سکتا اس لئے آدھے برتن کی بیع نہ ہونے کی وجہ سے پورے برتن کی بیع فاسد ہونی چاہئے لیکن فاسد اس لئے نہیں کریںگے کہ پہلے بیع پورے برتن کی ہوئی ہے اور بعد میں فساد آیا ہے اس لئے آدھے کا فساد پورے میں سرایت نہیں کرے گا۔ اس لئے آدھے برتن کی بیع ہوگی اور آدھے برتن کی بیع نہیں ہوگی۔ اور برتن بائع اور مشتری کے درمیان مشترک ہو جائے گا ۔
 اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ فساد شروع سے نہ ہو بلکہ بعد میں طاری ہوا ہو تو باقی مبیع میں سرایت نہیں کرے گا۔
]٩٨٢[(١١) اگر بعض برتن کا مستحق نکل آیا تو مشتری کو اختیار ہوگا اگر چاہے تو باقی کو اس کے ثمن کے حصے کے ساتھ لے اور اگر چاہے تو رد کردے۔  
تشریح  مثلا چاندی کا کوئی برتن سو درہم میں بیچا ۔بیع طے ہونے کے بعد کسی دوسرے نے کہا کہ اس برتن میں آدھا میرا حق ہے۔ اور دلائل کے ذریعہ اپنا حق ثابت کر دیا تو گویاکہ آدھا تیسرے آدمی کا ہوگا اور آدھا برتن مشتری کا ہوگا۔اور برتن میں شرکت عیب ہے اس لئے مشتری کو اختیار ہوگاکہ برتن کا جتنا حصہ اس کے حق میں آتا ہے اتنی قیمت دے کر لے لے اور چاہے تو پورے کی بیع فسخ کر دے۔  
اصول  شرکت عیب ہے اس لئے لینے اور فسخ کرنے کا اختیار ہوگا۔

Flag Counter