ذکر اللہ اور اطمینان قلب |
ہم نوٹ : |
|
گزرے گی کہ سلاطین کو اس کا تصور بھی نہ ہوسکے گا۔(دورانِ بیان حضرت والا نے وقت پوچھا عرض کیا گیا کافی وقت باقی ہے۔ اس پر فرمایا کہ جب وقت ہوجائے تو ہمیں بتادینا اس لیے کہ تقریر کے وقت میں کیا بتاؤں اللہ تعالیٰ کی کیا رحمت برستی ہے جس درد محبت کو میں پیش کرتا ہوں مجھے کچھ ہوش نہیں رہتا کہ میں کہاں ہوں۔) ؎ ترے جلووں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی زباں بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زباں رکھ دی تو اللہ تعالیٰ کے نام میں کیا لذت ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! تم بے وقوف ہو، مٹھائی کی دکان پر کھڑے ہوکر بھِک منگے بنے ہو۔ ارے جاؤ تسبیح اُٹھاؤ، اللہ کا نام لو، جو شکر پیدا کرسکتاہے اس کی مٹھاس کا کیا عالم ہوگا؟ اے دل ایں شکر خوشتر یا آں کہ شکر سازد اے دل!یہ چینی اور شکر زیادہ میٹھی ہے یا شکر کا پیدا کرنے والا زیادہ میٹھا ہے؟ اے دل ایں قمر خوشتر یا آں کہ قمر سازد اے دل!یہ چاند جیسے چہرے زیادہ حسین ہیں یا جو چاند بنانے والا ہے، لیلیٰ کو نمک دینے والا ہے، جس سے مجنوں پاگل ہوا، جو تمام دنیا کی لیلاؤں کو نمک دیتا ہے۔ آہ! ذرا الفاظ سنیے غور سے، وہ خالق نمکیات لیلائے کائنات جس کے دل میں آتا ہے وہ مولائے کائنات جب کسی کے دل میں آتا ہے تو ساری لیلائے کائنات سے بے نیاز کردیتا ہے۔ چاند اور سورج کی روشنی اس کو پھیکی معلوم ہوتی ہے کیوں کہ چاند وسورج اپنی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے نور کے محتاج ہیں جس نے انہیں نور دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ خود جس کے دل میں آئیں، اس کے نور کا کیا عالم ہوگا؟ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھو۔ فرماتے ہیں ؎ گر تو ماہ و مہر را گوئی خفا گر تو قد سرو را گوئی دوتا گر تو کان و بحر را گوئی فقیر گر تو چرخ و عرش را گوئی حقیر