ذکر اللہ اور اطمینان قلب |
ہم نوٹ : |
|
صدمہ و غم میں مرے دل کے تبسم کی مثال جیسے غنچہ گھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے چاروں طرف کانٹے ہیں لیکن غنچہ ان کانٹوں کے درمیان کھل جاتا ہے یا نہیں؟ نسیم صبح آتی ہے اور کلیوں کو کانٹوں کے درمیان کھلادیتی ہے اور پھول کھل جاتا ہے۔ تو نسیم صبح میں تو یہ اثر ہو اور اللہ کی رحمت کی جو ہوائیں اللہ کے عاشقوں پر برستی ہیں، ان میں یہ طاقت نہ ہو کہ غموں میں ان کا دل اللہ خوش رکھے۔ غم کیوں؟ غم اس لیےدیتے ہیں کہ اللہ کوبھول نہ جائیں یادل میں تکبرنہ پیداہوجائے۔ اللہ میاں بھی بیلنس رکھتے ہیں اپنے عاشقوں کا۔ زیادہ تعریف سننے سے بیلنس خطرہ میں پڑتا ہے یانہیں تو کبھی کچھ غم بھیج دیتے ہیں تاکہ میرے بندے کی عبدیت کا زاویہ قائم نوّے ڈگری سے ذرا سا اِدھر اُدھر نہ ہو، بندگی قائم رہتی ہے ورنہ تکبر آسکتا ہے یا نہیں؟ یہ تو میری تعبیر تھی۔ اب مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی تعبیر پیش کرتا ہوں۔مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس سے خوش رہتا ہے اور جو بندے زمین پر اللہ کو خوش رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو زمین پر خوش رکھنے کی ضمانت اور کفالت قبول کرتا ہے۔ کیوں صاحب! کوئی بیٹا اپنے ابا کو ہر وقت خوش رکھے، ابا اس کو خوش نہیں رکھے گا اپنی طاقت بھر؟ یہاں ابا کمزور بھی پڑسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طاقت میں کوئی کمی نہیں ہوسکتی تو جو بندہ اللہ کو خوش رکھے گا تو کیا اللہ تعالیٰ اس کو خوش رکھنے کی ضمانت قبول نہیں کرے گا؟ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سن لو اے اہلِ دنیا ؎ گر او خواہد عین غم شادی شود اگر وہ اللہ چاہے تو غم کی ذات کو خوشی بنادے۔ ہم لوگ اور یہ سائنس داں تو غم کو ہٹاکر اس کی جگہ خوشی کو لائیں گے لیکن وہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ اس غم کی ذات پر رحمت کی نگاہ ڈال دیں اور وہ غم ہی خوشی بن جائے۔ عین بہ معنیٰ ذات یعنی خود غم خوشی بن جائے ؎