ذکر اللہ اور اطمینان قلب |
ہم نوٹ : |
|
بڑھے گا کہ جس کی حد نہیں۔ ندامت اور توبہ سے وہ قرب ملتا ہے کہ فرشتوں کو بھی وہ قرب نصیب نہیں کیوں کہ فرشتوں کو قرب عبادت حاصل ہے لیکن انسانوں میں اولیاء اللہ کو دو قرب نصیب ہیں،قرب عبادت اورقرب ندامت۔ جس کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے کلام میں فرماتے ہیں ؎ کبھی طاعتوں کا سرور ہے کبھی اعترافِ قصور ہے ہے مَلک کو جس کی نہیں خبر وہ حضور میرا حضور ہے اولیاء کا مقام علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کے ذکر کا اور اولیاء اللہ کا اتنا اونچا مقام ہے کہ فرشتے ان کا ذکر سننے آتے ہیں، گھیر لیتے ہیں۔ گناہ گاروں کے ذکر کو سننے کے لیے فرشتے اپنا ذکر چھوڑ کر آتے ہیں۔ کیوں صاحب! کسی کی دال روٹی پر کوئی بریانی والا آئے گا؟ ان کو ہمارا ذکر بریانی معلوم ہوتا ہے اور ہمارے ذکر کے مقابلے میں ان کو اپنا ذکر کمتر معلوم ہوتا ہے،جس کی دو وجہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہیں۔فتح الباری شرح بخاری میں ہے کہ فرشتے یہ دیکھتے ہیں کہ یا اللہ! یہ جتنے انسان مؤمن ہیں یہ بغیر دیکھے تجھ کو یادکررہے ہیں اورہم تجھ کو دیکھ کریادکررہے ہیں تو جو ذکر عالم شہادت کا ہوتا ہے اس سے ذکر عالمِ غیب کا افضل ہوتا ہے۔ آپ بتائیے کوئی کسی کو دیکھ کر محبت کررہا ہے اور ایک آدمی بغیر دیکھے ہی اسے یاد کرکے رو رہا ہے۔ ہم لوگوں نے کبھی اللہ کو دیکھا؟ نہیں۔ لیکن بتاؤ اللہ کو یاد کرکے روتے ہو یا نہیں؟ تو فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ! آپ نے کیسی مخلوق انسان کی بنائی کہ جو بغیر دیکھے آپ کو یاد کررہی ہے، فدا ہورہے ہیں،شہید ہورہے ہیں، رو رہے ہیں،روزہ نماز کررہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ کیسی مخلوق ہے کہ بیوی بچے ہیں اور تمام فکر آٹا چاول کی ہورہی ہے اور یہ ہزاروں فکر کے باوجو داللہ کو یاد کرتے ہیں جبکہ ہمیں کوئی فکر نہیں لہٰذا ان کا ذکر افضل ہے ہمارے ذکر سے۔ اس لیے ہمارے ذکر کے وقت فرشتے ہمیں گھیرلیتے ہیں۔ جیسے اس وقت اللہ کا ذکر ہورہا ہے تو ان شاء اللہ فرشتوں نے ہمیں گھیرلیا ہے آسمان تک اور جب فرشتوں کا ماحول ملے گا تو کیا ہمارے اندرفرشتوں کے اثرات نہیں آئیں گے؟اس لیے