ذکر اللہ اور اطمینان قلب |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ لوگ اس کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن دیکھیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آنکھوں کا زنا فرمارہے ہیں، راستہ چلتے ایک تو نظر پڑجانا ہے اور ایک نظر ڈالنا ہے، ایک پڑنا ہے اور ایک پڑانا ہے،میں سادی اُردو بول رہا ہوں،پڑنا معاف ہے لیکن پڑانااورایک سیکنڈٹھہرانا حرام ہے، فَزِنَی الْعَیْنِ النَّظَرُ بدنظری آنکھوں کا زنا ہے۔13؎ واقعہ شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ بات چل رہی تھی شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی۔ ان کا ایک مرید ہزاروں میل چل کر ان کے پاس پہنچا اور گھر جاکر پوچھا کہ حضرت ہیں؟ بیوی نے کہا کیسے حضرت؟ ہم جانتے ہیں کہ وہ کیسے حضرت ہیں، ہمارے پاس تو رہتے ہیں، ان کا سارا کھیل کود ہم جانتے ہیں، کچھ نہیں حضرت وضرت۔ وہ بے چارہ مرید رونے لگا کہ ہزاروں میل سے آیا ہوں لیکن اس نے تو میری عقیدت میں دھکا ماردیا۔ روتا ہوا گیا۔ محلہ والوں نے دیکھا تو کہا وہ بڑے اولیاء اللہ ہیں، بیوی کی تکلیفوں پر صبر سے اللہ نے ان کو بڑا مقام دیا ہے، جاؤ جنگل میں ان کے مقام کا پتا چلے گا۔ اب وہ مرید جنگل میں گیا تو دیکھا شیر پر بیٹھے آرہے ہیں۔ کیا شیر پر بیٹھ سکتا ہے کوئی؟ یہ کرامت تھی۔ شیر پر بیٹھے ہیں اور لکڑیاں کاٹ کرگٹھڑی باندھ کر اس کی کمر پر رکھا ہے اور جب شیر چلنے میں گڑ بڑ کرتا ہے تو سانپ کے کوڑے سے اس کی پٹائی کرتے ہیں۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ جن کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، انہوں نے مثنوی میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ اور میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب اس واقعہ کو بیان کرتے تھے تو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شعر کو بڑے عجیب انداز میں پڑھتے تھے جو مولانا نے اس واقعہ کے آخر میں بیان کیا ہے۔ میں اس شعر کو سنانا چاہتا ہوں۔ جب اس مرید نے کہا حضرت! میں آپ کے گھر گیا تھا بہت پریشان ہوکر آیا۔ فرمایا کہ میں سمجھ گیا۔ سنو! اسی بیوی کی تکلیف اُٹھانے سے جو اللہ کے لیے اُٹھارہا ہوں، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس شیر کو میرا غلام بنادیا، یہ کرامت اسی بیوی کی تکلیف پر صبر کرنے سے ملی ہے کہ اللہ کی بندی ہے، _____________________________________________ 13 ؎صحیح البخاری: 923-922/2(6275)، باب زناالجوارح دون الفرج، المکتبۃ المظہریۃ