ذکر اللہ اور اطمینان قلب |
ہم نوٹ : |
|
اللہ کے ذکر کے ساتھ چین ملتا ہے بلکہ بامعنیٰ فی ہے کَمَا اَنَّ السَّمَکَۃَ تَطْمَئِنُّ فِی الْمَآءِ 19؎ جیسے مچھلی جب پانی میں ڈوب جاتی ہے کہ اوپر نیچے دائیں بائیں سب پانی ہو تب اس کو چین ملتا ہے۔ اگر مچھلی کا صرف ایک انچ سر پانی سے کھلا رہ جائے تو چین نہیں پائے گی۔ لہٰذا دوستو! جب ہم اللہ کی یاد میں ڈوب جائیں گے، جب آنکھیں بھی ذاکر ہوں، کان بھی ذاکر ہوں، جسم کا کوئی عضو نافرمانی میں مبتلا نہ ہوتو سمجھ لو کہ ذکر میں ڈوب گئے، اب دل کو اطمینان کامل نصیب ہوگا لیکن اگر آنکھیں بدنظری میں مبتلا ہیں تو اللہ کے قرب کے دریاسے خارج ہیں۔ایک گناہ دل کوبے چین کردے گا۔تجربہ کی بات کہتا ہوں کہ جیسے اہلِ یورپ،سوئٹزر لینڈ وغیرہ واٹر پروف گھڑیاں بناتے ہیں، چاروں طرف پانی ہوتا ہے مگر گھڑی میں ایک قطرہ پانی بھی نہیں گھستا۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ اپنے ذاکرین کے دل کو پریشانی سے محفوظ رکھتے ہیں مگر ذاکرین سے مراد ذکر مثبت اور ذکر منفی والے ہیں یعنی جو اللہ کے احکام کی تعمیل بھی کرتے ہوں اور گناہ سے بھی بچتے ہوں، دونوں ضروری ہیں۔ اللہ کے دو حق ایک بزرگ نے فرمایا ہے کہ عبادت تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا حق ہے مگر گناہ سے بچنا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے۔ یاد کرلینا اس نکتہ کو، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی، کئی برس کے ارادوں کے بعد حاضری ہوئی ہے۔ پوچھو مولانا محمد ایوب صاحب سے کہ بیت اللہ میں یہ ہم کو انگلینڈ کی حاضری کی دعوت دیا کرتے تھے مگر میرا ارادہ مراد تک نہیں پہنچتا تھا۔ اب ایسے اسباب اللہ تعالیٰ نے پیدا کردیے کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ لہٰذا حق دو ہیں۔ ایک محبت کا حق، ایک عظمت کا حق۔ محبت کا حق ہے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جو بھی احکام ہیں، اور اللہ کی عظمت کا حق یہ ہے کہ ہم ان کو ناراض نہ کریں۔ اہل اللہ کی صحبت لیکن اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اور تقویٰ کے لیے جب تک ہم اللہ والوں کی _____________________________________________ 19 ؎التفسیر المظہری :261/1،الفجر(26)