ذکر اللہ اور اطمینان قلب |
ہم نوٹ : |
|
ان کی اماں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نوکرانی تھیں۔ محدثین لکھتے ہیں کہ ان کی اماں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ اور ہماری ماں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی نوکرانی تھیں۔ جب یہ پیدا ہوئے تو ان کو لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا امیر المؤمنین! اس بچہ کی سنت تحنیک ادا کردیجیے یعنی کچھ چباکر اس کے منہ میں ڈال دیجیے۔ یہ سنت ہے کہ بزرگوں سے یا علمائے دین سے تحنیک کروائی جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ کھجور چباکر ان کے منہ میں ڈال دی۔ اسلام کی فتح۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام محدثین لکھتے ہیں کہ خواجہ حسن بصری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے علم کا یہی سبب تھا کہ اتنے بڑے صحابی خلیفۂ دوم جن کے اسلام لانے پر محدثین لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے تو فوراً حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس خوش خبری میں ایک آیت لایا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آج سے اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہوگیا اورعمر کےاسلام سےسارے فرشتے آسمان میں خوشیاں منارہے ہیں، قَدِاسْتَبْشَرَاَھْلُ السَّمَاءِ بِاِسْلَامِ عُمَرَ 3؎ اوریہ آیت نازل ہوئی اَیُّہَاالنَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ 4؎ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ آپ کو کافی ہے اور جو ایمان والے آپ کے تابعدار ہیں یہ آپ کو کافی ہیں۔ مجدد زمانہ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب اللہ آپ کو کافی ہوگیا تو پھر ایمان والوں کے کافی ہونے کا تذکرہ کیوں آیا؟ جبکہ اللہ کا کافی ہونا کافی ہے۔ فرمایا کہ کفایت کی دو قسمیں ہیں،ایک کفایت ظاہرہ، ایک کفایت حقیقیہ،حقیقتاً تو اللہ کافی ہے لیکن ظاہری طورپر کافروں پر رعب جمانے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام سبب بنا۔آہ! جیسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے سارے کافر لرزہ براندام ہوگئے اور پہلی نماز کعبہ میں قائم کردی۔ چالیسویں مسلمان ہیں، بیس _____________________________________________ 3 ؎سنن ابن ماجہ:106، باب فضل عمر، المکتبۃ الرحمانیۃ 4 ؎الانفال:64