ذکر اللہ اور اطمینان قلب |
ہم نوٹ : |
|
کیوں نہ ولی اللہ بن کر جائیں تاکہ وہاں جاکر بڑی عزت سے رہیں اور کیوں صاحب پردیس میں اگر کوئی رئیس ہے تو وطن میں بھنگی اور فقیر رہنا چاہتا ہے؟ جہاں ہمیشہ رہنا ہے وہ اپنا دیس اور وطن ہے، ہر عقل مند اپنے وطن کی زندگی کو بناتا ہے۔ ایک بزرگ کی نصیحت ایک بزرگ سے کسی نے عرض کیا کہ کوئی نصیحت کردیجیے فرمایا کہ دو جملوں میں پورا دین پیش کردیتا ہوں۔۱) اِعْمَلْ لِلدُّنْیَا بِقَدْرِ مَقَامِکَ فِیْھَا دنیا کے لیے اتنی محنت کرو جتنا یہاں رہنا ہے۔ وَ اعْمَلْ لِلْاٰخِرَۃِ بِقَدْرِ مَقَامِکَ فِیْھَا آخرت کے لیے اتنی محنت کرو جتنا وہاں رہنا ہے۔ بتائیے اس میں پورا دین ہے یا نہیں؟ اب اگر دونوں زندگی کا کوئی بیلنس نہ نکالے ہر وقت کماتا رہے تو بتادوں وہ کیا بن جائے گا؟ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں ایک فیکٹری اور کھولنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا جب زیادہ کمانا ہوگا تو پھر میرے پاس کم آنا ہوگا اور دین کمزور ہوجائے گا،اتنا کماؤ جس سے عزت سے رہ لو اور جو دونوں زندگی کا بیلنس نہیں نکالتا اور رات دن دنیا میں پھنسا ہوا ہے تو بیلنس میں ایک لفظ بیل ہے یا نہیں، بتاؤ؟ تو یہ سمجھ لو کہ یہ بیل ہے، انسان نہیں ہے کہ وطن کو خراب کررہا ہے اور چند روز کی تعمیر میں لگا ہوا ہے۔ خواجہ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شعر خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ میرے شیخ کے ساتھ لکھنؤ میں سفر کررہے تھے اور لکھنؤ سجایا جارہا تھا۔ انگریزوں کی حکومت میں وائسرائے کی آمد پر سارا لکھنؤ سجایا گیا تھا۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت! ابھی ابھی ایک شعر بن گیا ہے ؎ رنگ رلیوں پہ زمانہ کی نہ جانا اے دل یہ خزاں ہے جو باندازِ بہار آئی ہے تو میں نے عرض کیا تھا کہ اطمینان اور چین کہاں ملتا ہے؟ اَلَابِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دل کا اطمینان صرف میری ہی یاد سے ملے گا مگر یاد سے کیا مراد ہے؟