M
الفضل کی دروغ بافیاں دروغ گو یم بروئے تو مناظرۂ انیچولی کے متعلق غلمدی جسارت
میں حال دل تمام شب ان سے کہا کیا
ہنگام صبح کہنے لگے کس اداسے ’’کیا؟‘‘
فطرت کی ناز آفرینی بعض مرتبہ انسان سے ایسے مخیر العقول کام کرادیتی ہے کہ بصورت آخر جن کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وقوع وفعلیتہ تو کجا مگر:
چوں قضا آید طبیب ابلہ شود
بعینہ یہی حالت ان لوگوں کی ہوتی ہے۔ جن کی تجویفات دماغ ماحول کے خلاف امید تأثرات سے مائوف ہوکر وہ کر گزرتی ہیں جو انہیں نہ کرنا چاہئے تھا۔
آپ اسے تقاضائے جنوں سمجھئے یارونمائی وخود فزائی کا انوکھا طریقہ بہر حال یہ امر واقعہ ہے کہ بعض دفعہ انسان ایسا بار عظیم اٹھانے کے لئے اپنے ناتواں شانے پیش کردیتا ہے۔ جس کا تحمل ان کے تکلیف مالا یطاق بن جاتا ہے۔ بالکل یہی حالت الفضل ۵؍نومبر ۱۹۲۹ء مطابق ۲؍جمادی الاخر ۱۳۴۸ء سہ شنبہ کے فاضل نامہ نگار نام نہاد مجاہد کی ہے۔ آپ مناظرہ انیچولی کے شکست خورد مناظر ہیں اور دروغ مصلحت آمیز بہ ازراستی فتنہ انگیز کے مقولہ کی بناء پر ایک مقالہ بھی سپرد قلم فرماتے ہیں۔ جس میں غلمدیوں کی عاجزی اور ناتوافی اور اہل اسلام کی شجاعت وپامردی پر نوحہ کرتے ہوئے اعتراف کررہے ہیں کہ جو شرائط دربارۂ مناظرہ انیچولی ہم سے منظور کرائی گئیں۔ ان میں بڑی حد تک جبروکراہ کار فرما تھے۔
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
درافشانی فرماتے ہیں:’’شرائط مباحثہ میں دیو بندی علماء نے بے حد سینہ روزی اور خود سری سے کام لیا تھا۔‘‘ مگر میں فاضل مقالہ نگار کو بتانا چاہتا ہوں کہ دیو بندیوں کی سینہ زوری نہیں۔ ’’ہو القاہر فوق عبادہ‘‘ کی قوت قاہرہ کا ظہور تھا۔ جس نے نمرود وفرعون کے مقابلہ میں نبینا ابراہیم وموسیٰ علیہم السلام سے سینہ زوری کرائی۔ جس نے کفرستان عرب وفارس کے لئے سیدنا حیدرؓ وخالد بن ولیدؓ جیسے سینہ زور ونبرد آزما وجود تخلیق کئے۔ جس نے غلمدیوں کی بیخ کنی کے لئے سر زمین انیچولی میں بطل اسلام حضرت مولانا مولوی عبدالشکور صاحب لکھنویؒ