یقین کلی ہوا یا نہ۔ ذرا غور فرمائو۔ اﷲ تعالیٰ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذی وجاہت دنیا اور آخرت اور مقربوں سے فرمائے اور قادیانی نے ان کو سامری بازی گر نجومی لہولعبی سے تشبیہیں دیں۔ جس سے عیسیٰ علیہ السلام خود سامری بازی گر ہوئے۔
خدائے تعالیٰ تو فرما دے کہ وہ پالنے اور کہولت میں باتیں کرے گا۔ یہ بھی معجزہ ہے اور قادیانی انکار کرے اور اﷲ تعالیٰ تو حضرت مریم کی اطمینان فرمائے کہ اﷲ جو کرنا چاہے کہتا ہے کہ ہو۔ پس وہ ہوجاتا ہے۔ بے باپ لڑکا ہونے میں تعجب نہ کر اور ہم سکھائیں گے۔ عیسیٰ کو کتاب وحکمت اور پیغمبری طرف بنی اسرائیل کے اور قادیانی ان کو سامری بازی گر نجومی لہو لعبی وغیرہ بتائے۔
کیوں صاحبو! یوسف نجار کو عیسیٰ مسیح کا باپ قادیانی کا بتانا اور قانون قدرت فلسفہ جس کی وجہ سے معجزہ ومعراج روحی وجسمی سے انکار ہے۔ صحیح ہے یا قانون قرآن خدا وندی صحیح ہے۔ یقین ہے کہو گے کہ قرآن صحیح ہے۔ پھر اگر کو ئی ایسے بزرگ نبی کی نسبت اپنی کور باطنی وسیاہ قلبی سے بازی گر وسامری ونجومی وغیرہ کی تشبیہ دے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مثل نصاریٰ باپ بھی قرار دے اور قرآن جو قانون خدا ہے۔ چھوڑ کر قانون قدرت فلسفی پر یقین کرے۔ تو آپ ہی ارزوئے انصاف فرمائیں کہ وہ شخص بصورت انسان بحقیقت مجسم شیطان ہے یا نہیں۔ چنانچہ مولانا روم بھی ارشاد فرماتے ہیں:
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نشاید داد دست
پس ایسے شخص سے دور بھاگنا اور پناہ مانگنا چاہئے۔ موافق فرمودہ خداوند عالم ’’الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس (الناس:۵،۶)‘‘ {وہ جو وسوسہ ڈالتا ہے بیچ سینہ لوگوں کے جنون میں سے اور آدمیوں میں سے} پس ایسے شخص کے نام پر فوراً لاحول پڑھ لیا کرو تاکہ اس کے اثر سے محفوظ رہو اور سنئے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ تو یہ ارشاد کیا جس کو اﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں یوں فرماتا ہے:
قولہ تعالیٰ: ’’انی قد جئتکم بایۃ من ربکم ان اخلق لکم من الطین کہئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً باذن اﷲ وابری الاکمہ والا برص واحی