حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس امت کے اعزاز اور بزرگی جو اسے اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ فرماویں گے۔ نہیں تم ہی میں سے بعض بعض پر حاکم اور امیر ہوں گے۔
حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے جامع مسجد دمشق کے شرقی منارہ سے نزول فرمائیں گے۔ نماز کے لئے اقامت ہوچکی ہوگی۔ عیسیٰ علیہ السلام حضرت امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ پھر لشکر اسلام، لشکر دجال پر حملہ کرے گا۔ گھمسان کا معرکہ ہوگا۔ اس وقت دم عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خاصیت ہوگی کہ جہاں تک آپ کی نظر کی رسائی ہوگی وہاں تک آپ کا سانس بھی پہنچے گا۔ اور جس کافر تک وہ پہنچے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور دجال بھاگ جائے گا۔ مگر مسیح علیہ السلام اس کو بیت المقدس کے قریب موضع لد کے دروازے میں جالیں گے۔ اور نیزہ سے اس کا کام تمام کردیں گے۔ لشکر اسلام، لشکر دجال کے قتل وغارت میں مشغول ہوجائے گا۔ لشکر دجال میں جو یہودی ہوں گے۔ ان کو کوئی چیز پناہ نہ دے گی۔ یہاں تک کہ رات کے وقت اگر کوئی یہودی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپا ہوگا تو وہ پتھر یا درخت خود بول اٹھے گا کہ یہودی یہاں ہے اس کو قتل کردو۔ دجال کے فتنہ کے رفع ہونے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام اصلاحات میں مشغول ہوں گے۔ صلیب کو توڑیں گے۔ خنزیر کو قتل کردیں گے اور کفار سے جزیہ قبول نہ کیا جائے گا۔ سوائے قبول اسلام اور قتل کے دوسرا حکم نہ ہوگا۔ سب کافر مسلمان ہوجائیں گے۔ امام مہدی علیہ الرضوان کی خلافت ۷ یا ۸ یا ۹سال ہوگی۔ اس کے بعد آپ کا وصال ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے جنازہ کی نماز پڑھائیں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام تینتیس سال کی عمر میں آسمان سے اتریں گے۔ نکاح کریں گے۔ اولاد ہوگی ۔ وصال فرمائیں گے۔ تو پھر عیسیٰ علیہ السلام روضۂ رسول ﷺ میں دفن ہوں گے۔
امام جعفر صادقؒ اپنے باپ حضرت محمد باقرؒ سے بیان کرتے ہیں وہ اپنے باپ علی زین العابدینؒ سے مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ خوش ہوجائو۔ میری امت کی مثال بارش کی مثال ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا اخیر بہتر ہے یا شروع۔ یا اس باغ کی طرح ہے جس سےایک سال ایک فوج نے کھایا۔ پھر دوسرے سال ایک اور فوج نے کھایا۔ شاید اس کی آخری فوج عرض میں زیادہ عریض ہو۔ اور عمق میں زیادہ عمیق ہو۔ اور حسن میں زیادہ اچھی ہو۔ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے شروع میں، میں اور درمیان میں مہدی اور آخر عیسیٰ علیہ السلام ہوں۔ لیکن اس کے درمیان ٹیڑھے ایلچی ہوں گے۔ نہ ان کا مجھ سے تعلق اور نہ میرا ان سے ۔